Connect with us

سیاست

اسلام فوبیا!!! مساجد پر حملے سے لیکر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت تک

Published

on

تحریر : ارم نیاز

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کم و بیش چار ہزار سے زائد مذاہب موجود ہیں۔ ان مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہی مذاہب میں شمار دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے جسکے منانے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے اور جن کی تعداد 1.8 بلین سے زیادہ ہے ۔ دنیا کی کل ابادی کا تقریباً24.1 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

چودہ سو سال قبل جب عرب کے صحرا سے دنیا بھر میں اسلام کی کرنیں پھیلنے لگیں تو تبھی سے اس دین سے غیر مسلموں کو خوف آنے لگا۔ تاریخ میں کئی ایسے واقعات موجود ہیں جہاں مسلمان فاتحین اور حکمرانوں نے اسلامی روایات و اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور رحم دلی کا مظاہرہ کیا جو غیر مسلموں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ یہ سلسلہ جنگ بدر سے شروع ہوا جب ہمارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے جنگی قیدیوں سے حسن سلوک کا حکم صادر فرمایا۔ کئی مواقع پر ایسے ہی واقعات نے لادین افراد کے دلوں میں گھر کیا اور قبائل کے قبائل کلمہ حق کی صدا بلند کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ طارق بن زیاد سے لیکر نور الدین زنگی تک، صلاح الدین ایوبی سے لیکر عثمان غازی اور محمد بن قاسم تک ہر فاتح نے درگزر، ہمدردی، محبت اور صلہ رحمی کی وہ داستانیں رقم کیں جنکو سن کر اسلام کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اسلام سے نفرت تو صدیوں پہلے شروع ہو چکی تھی لیکن یہ انتہا کو اس وقت پہنچی جب 2001 میں 9/11 کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر امریکہ میں ہونے والے دہشتگرد حملوں میں مسلمانوں کا نام آنا ہی اس نفرت کی ابتدا بن گئی جو ہر لمحے بھڑکتی جا رہی ہے۔ اس وقت اسلام فوبیا کا لفظ تیزی سے زبان زد خاص و عام ہونے لگا۔

اسلام فوبیا ہے کیا؟ یہ وہ عمل ہے جس میں اکثر مذہبی انتہا پسند گروہ اپنے ہی دین کے لوگوں کو اسلام کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر افشانی کر کے ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پیدا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام کا خوف داخل ہوتا ہے اس کو اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔

اسلام فوبیا اب قرآن پاک کی بے حرمتی، مساجد پر حملے، مسلمانوں کے بارے میں منفی دقیانوسی تصورات اور ان کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد تک وسیع ہو گیا ہے جو کہ یقیناً ایک تشویشناک امر ہے۔

بات یہیں تک نہیں رکتی، سن 2015 سے نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے۔

فرانس کے ایک جریدے چارلی ایبڈو نے نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے انکے خاکے شائع کیے۔ اس کے مدیر نے خاکوں کی اشاعت کا آزادی رائے کی ایک علامت کے طور پر دفاع کیا تھا۔

2008 میں گستاخانہ فلم بنانے والے گیرٹ وائلڈرز نے نومبر 2018 میں پیغمبر اسلام کے خاکے بنانے کا مقابلہ نیدر لینڈ کی پارلیمان میں گیرٹ وائلڈر کی سیاسی جماعت کے دفتر میں منعقد کروانے کی ٹھانی۔ تاہم قتل کی دھمکیوں اور دوسروں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے سبب پیغمبر اسلام کے خاکوں کا مقابلہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔

دوسری جانب فرانسیسی صدر ایمینوئل میکخواں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مسلمانوں کے خلاف ایک ایسی مہم شروع کر دی جو مذہب سے زیادہ انکے سیاسی کیرئیر میں مددگار ثابت ہو سکتی تھی۔ فرانس میں ایک استاد نے طلبہ کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع خاکے دکھائے جس کے بعد اس استاد کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد میکخواں نے آزادی رائے کی بنیاد پر نا صرف اس استاد کو قومی ہیرو قرار دیا بلکہ خاکوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم ان خاکوں کو نہیں چھوڑیں گے۔’

سخت اقدامات کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے فرانس میں مقیم مسلم خواتین کے حجاب پر مکمل پابندی لگا دی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اسلام فوبیا کا سب سے زیادہ شکار وہ مسلمان خواتین ہوتی ہیں جو مغربی ممالک میں حجاب اوڑھتی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں جہاں مسلمان خواتین کو محض انکے حجاب کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی میلاد کانفرنس کے دوران فرانس اور مسلمان ممالک کے درمیان تناؤ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “اظہارِ رائے کی آزادی کی ایک مقررہ حد ہوتی ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ دوسروں کو تکلیف پہنچائیں۔”

گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے علاؤہ مُسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کو بھی مغربی ممالک طرہ امتیاز سمجھنے لگے۔ برطانیہ، سویڈن اور ناروے میں قرآن کریم کے نسخے جلانے کے کئی واقعات رونما ہوئے جس پر مسلمان سراپا احتجاج ہوئے۔

نفرت کی آگ بڑھتی چلی گئی اور ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اقلیتوں کو تحفظ دینے والے دین اسلام کے پیروکار مغرب میں اپنی مساجد میں بھی غیر محفوظ ہونے لگے۔ 2019 میں نیوزی لینڈ کی مسجد میں پیش آنے والے واقعے نے دنیا بھر کے مسلمانوں سمیت درد دل رکھنے والے انسانوں کو بھی دہلا کر رکھ دیا جب نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں نماز جمعہ سے قبل مسلح حملوں میں 50 افراد شہید اور 20 سے زائد زخمی ہوئے۔

سنہ 2023 میں اقوام متحدہ نے 15 مارچ بروز جمعہ کو مسلمانوں کے خلاف تعصب سے نمٹنے کے لیے پہلا عالمی دن منایا۔ اس موقع پر جنرل اسمبلی میں ایک خصوصی اجلاس ہوا جس میں مقررین نے مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت، امتیاز اور تشدد کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔

اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق فرانس میں لگائی جانے والی سخت پابندیوں کے باوجود فرانس میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے چند سالوں میں اسلام دنیا کے سب سے بڑے مذہب کی نشست پر براجمان ہو جائے۔ یقیناً یہی وہ خوف ہے جس نے اسلام مخالف قوتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک کے سربراہان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلام مخالف قوتوں کو بھرپور جواب دیں۔

مزید برآں سیرت النبی ﷺ کا لٹریچر مختلف زبانوں میں تیار کر کے اسکی اشاعت کریں تاکہ دنیا کے ہر مذہب کے پیرو کار جان لیں کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کیلئے رحمت ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *