سیاست
ترقی پسند نہیں ترقیاتی صحافت کی ضرورت
تحریر : شمس مومند
یہ دو ہزار چودہ کی بات ہے مجھے اپنے ادارے کی جانب سے اسلام آباد میں منعقدہ پانچ روزہ تربیتی ورکشاپ کیلئے بھیجا گیا۔ واشنگٹن سے آئی ہوئی درمیانی عمر کی ایک باصلاحیت خاتون ہماری ٹرینر تھی۔ دس سال پہلے حاصل کرنے والے اس ٹرینگ کا اہم موضوع (ایپریشی ایٹو انکوائری) تھا۔ میرے ہم پیشہ دوست بہتر جانتے ہیں کہ صحافت کے میدان میں اس اصطلاح کا مطلب منفی خبروں اور مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے بجائے معاشرے کے مثبت پہلوؤں اور کامیابیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ نہ صرف قارئین اور ناظرین کو امید اور تحریک فراہم کرتا ہے بلکہ معاشرتی تبدیلی میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں صرف مسائل کی نشاندہی اور ان پر تنقید کو ہی صحافت سمجھا جاتا ہے۔لیکن ایپریشی ایٹو انکوائری صحافیوں کو اس بات پر توجہ دینے کی ترغیب دیتا ہے کہ مسائل کے حل کیسے نکلتے ہیں یا کونسے افراد اور ادارے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔پانی کی قلت پر رپورٹ کرنے کے بجائے ایسے علاقوں کو نمایاں کریں جہاں لوگوں نے کامیابی سے اس مسئلے کو حل کیا ہو۔
ٹریننگ میں ہمیں بتایا گیا کہ کسی بھی انسان کی زندگی ہمیشہ ناکامیوں اور مسائل سے دوچار نہیں ہوتی ہے مگر بد قسمتی سے ہم اپنی کامیابیوں اور خوشیوں کو بھلا دیتے ہیں جبکہ ناکامیوں اور دکھوں کو یاد رکھتے ہیں۔ جو ہمیں مزید ناکامیوں اور دکھوں سے دوچار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
ایپریشی ایٹو انکوائری کے ذریعے صحافی معاشرے کی کامیابیوں، امید افزا کہانیوں، اور ایسے لوگوں کے کردار کو اجاگر کر سکتے ہیں جو دوسروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس سینئر ٹرینر خاتون نے ہمیں بتایا کہ مسائل کی نشاندہی ہمیشہ مسائل کو حل کرنے کا سبب نہیں بنتی ہے مگر مسائل کے حل کی نشاندہی یقینا مسائل کے حل کا سبب بنتی ہے۔ ہر وقت مسائل اور مشکلات کا رونا رونا معاشرے میں نفسیاتی مسائل اور تناو کو جنم دیتا ہے۔ جبکہ کامیابیوں کے تذکرے، صلاحیتوں کا اظہار، مشکلات کا حل ، عوام میں امید پیدا کرکے انہیں بہتر مستقبل کیلئے مزید محنت اور جدوجہد پر آمادہ کرتے ہیں۔
اب ذرا اپنے نوجوان صحافی دوستوں کیلئے ترقی پسند صحافت اور ترقیاتی صحافت کے فرق کو بھی واضح کرتا چلوں تاکہ وہ خود فیصلہ کر سکے کہ پاکستان اور خصوصا پختونخوا جیسے علاقوں میں ہمیں اس وقت کس قسم کے صحافت کی ضرورت ہے۔
ترقی پسند صحافت سے مراد وہ صحافتی انداز اور اصول ہیں جو سماجی انصاف، انسانی حقوق، اور مثبت تبدیلیوں کے فروغ پر مرکوز ہوتے ہیں۔ یہ صحافت غیر جانبداری کے ساتھ مسائل کو اجاگر کرتی ہے، عوامی شعور کو بیدار کرتی ہے، اور پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ جبکہ اسکے برعکس ایسا صحافتی انداز جو معاشرتی، اقتصادی، اور انسانی ترقی کو فروغ دینے پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس کا مقصد ترقیاتی منصوبوں، مسائل اور ان کے حل کو اجاگر کرنا اور عوام کو ترقی کے عمل میں شامل کرنا ہے۔ یہ صحافت روایتی خبروں سے آگے بڑھ کر ان موضوعات پر توجہ دیتی ہے جو لوگوں کی زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں صحافت کا کردار معاشرتی ترقی اور عوامی شعور بیدار کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے، ہمارے ہاں صحافت کا زیادہ تر رجحان ترقی پسند تحریکوں اور نظریاتی مباحث تک محدود رہ گیا ہے۔ یہ رجحان معاشرے کی حقیقی ضروریات اور مسائل سے توجہ ہٹانے کا سبب بنتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ صحافت کو ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، تاکہ معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔صحافیوں کو اپنی توانائیاں ان مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل پر مرکوز کرنی چاہئیں جو معاشرے کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان میں تعلیمی نظام کی خرابی، پانی کی قلت، اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل پر میڈیا کو زیادہ سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ دور حاضر میں ترقیاتی صحافت کو کئی قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں میڈیا ہاؤسز کی کمرشلائزیشن، اشتہاری دباؤ، اور عوامی دلچسپی کے مسائل شامل ہیں۔ تاہم، ان رکاوٹوں کے باوجود، اگر صحافی اپنی قومی اور معاشرتی ذمہ داری کو سمجھیں اور سماجی مسائل کو اجاگر کریں، تو یہ شعبہ ایک مثبت انقلاب لا سکتا ہے۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشرتی ترقی اور عوامی بہبود صرف ترقیاتی صحافت کے ذریعے ممکن ہے۔ صحافیوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے عوامی مسائل پر کام کرنا ہوگا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ترقی پسند نظریات کے بجائے ترقیاتی صحافت کو ترجیح دی جائے تاکہ ہم ایک بہتر اور خوشحال معاشرے کی تشکیل میں مدد کر سکیں۔
ایپریشی ایٹو انکوائری کا استعمال صحافت میں ایک نئی سوچ اور نقطہ نظر متعارف کروا سکتا ہے، جو نہ صرف سماجی شعور میں اضافہ کرے گا بلکہ مثبت تبدیلیوں کی راہ بھی ہموار کرے گا۔ یہ صحافت کو ایک ایسا ذریعہ بناتا ہے جو مسائل کے بجائے مواقع کو اجاگر کرے اور معاشرے کے لیے امید کا پیغام لے کر آئے۔اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ہمیں ترقی پسند صحافت کی ضرورت ہے یا ترقیاتی صحافت کی؟