سیاست
مسلمانوں کے مابین نفرت پھیلاتی تیسری قوت
تحریر : ارم نیاز
کرہ ارض پر اس وقت کم و بیش 4200 مذاہبِ کے پیروکار موجود ہیں۔ کئی ایسے مذاہب ہیں جنکے نام سے بھی شاید ہم واقف نہ ہو لیکن وہیں دنیا کے تین بڑے مذاہب میں عیسائیت ، اسلام اور بت پرست (ہندوازم) ہیں ۔
اسلام دنیا کا وہ دین جسکی روشنی غار سے پھوٹی۔ مکہ مکرمہ کے قریب واقع پہاڑ جبل نور میں موجود غار حرا میں اپنے خالق سے محو گفتگو نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ پر جب جبرائیل علیہ السلام وحی لیکر نازل ہوتے ہیں تو انکو سینے سے بھینچ کر کہتے ہیں “پڑھ”۔۔۔اس ساری صورتحال سے حضرت محمد ﷺ کے قلب مبارک پر لرزہ طاری ہوتا ہے۔ یہ اعلان تھا آپ ﷺ پر نبوت کے سلسلے کو اختتام کرنے کا، تبلیغ اسلام کی عظیم اور بھاری ذمہ داری آپ ﷺ کے کندھوں پر لادنے کا۔
تریسٹھ سال کی عمر تک آپ ﷺ اور آپکے ساتھیوں نے جن مصائب کا سامنا کیا، جنگیں لڑیں، مشکلات برداشت کیں، دعوت تبلیغ کی انکا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ ایک کٹھن دور سے گزرنے کے بعد رب العالمین نے آپکو فتح مکہ نصیب فرمائی۔ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوا۔ تریسٹھ برس کی عمر میں آپ ﷺ کا انتقال ہوا تو گویا اسلام کی صفوں میں ہلچل مچی۔ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا۔ آپکے بعد اسلام کو جوڑے رکھنے اور پھیلانے کی زمہ داری وقتاً فوقتاً چار خلفاء راشدین پر آن پڑی۔
اسلام مخالف قوتوں کا ظہور ہونے لگا۔ آپ ﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کرنے والے مسلیمہ کذاب جیسے کئی افراد آپ ﷺ کی وفات کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ اسلام مخالف سب سے خطرناک فتنہ تھا جس کی سرکوبی ضروری تھی۔
وقت گزرتا گیا اسلام مخالف قوتوں نے اسلام کے مختلف گروہوں کے مابین تفریق کرنا شروع کر دی۔ مسلمانوں کو باہم لڑوانے کے مکروہ فعل پر عملدرآمد ہوا جو آج بھی جاری و ساری ہے اور آج اسلام کئی فرقوں میں بٹ چکا ہے۔
دنیائے اسلام کے دو بڑے فرقے شیعہ اور سنی ہیں۔ اپنے نظریات کی بنیاد پر ان میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انکی جڑیں ایک ہیں۔ انکا اللہ کی وحدانیت پر یقین، رسول اکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان اور آسمانی کتاب قرآن ایک ہے۔
پاکستان کے علاقے کرم – پارا چنار میں مسلکوں کے مابین جنگ آج بھی جاری ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تیسری قوت آج بھی فعال ہے جبکہ شیعہ و سنی برادری اپنے دشمن کو پہچان نہیں پا رہے۔ یقیناً یہ وہ شیطانی قوت ہے جو کسی صورت اسلام کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتی۔ یہ وہی قوت ہے جو مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان غلط فہمیاں و اختلاف کی چنگاری جلا کر آگ لگاتی ہے۔ صدیوں سے چلے آ رہے زمینی تنازعات کو بھی مسلکی رنگ دیکر بھڑکایا جاتا ہے۔
یہ فرقہ وارانہ فسادات محض ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ ایک مسلم ملک کو دوسرے اسلامی ملک سے لڑوانے کیلئے بھی کئی تحریکیں سرگرم ہیں۔ شرپسندوں نے نفرت کی ایسی خلیج حائل کر رکھی ہے جسکی وجہ سے آج تک پاک افغان تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ جب بھی یہ برف پگھلنے لگتی ہے شرپسند کوئی نئی سازش رچا کر مقصد حاصل کر لیتے ہیں۔
ایک سینئیر سیاستدان کا کہنا ہے کہ “پہلے پاک افغان سرحد کھلتی نہیں، جب کھل جاتی ہے تو دھماکے ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ قوتیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات نہیں چاہتے”
یہ حقیقت ہے۔ کئی کالعدم تحریکیں پاکستان اور افغانستان میں متحرک ہیں جو دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات کی خواہاں نہیں۔ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال، وہاں پنپنے والی فتنہ الخوارج کی موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جبکہ پاکستان میں کالعدم پی ٹی ایم جیسی تحریکوں کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک و مسلک اپنے مابین چھپے دشمن کو پہچانیں ۔ ایسے افراد و عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عوام بطور ذمہ دار شہری اپنا فرض نبھائے اور ایسے مکروہ گروہ / عناصر کو بینقاب کر کے امن قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
