سیاست
پاڑا چنار کی مسیحا کون؟
تحریر : ارم نیاز
پاڑا چنار ایک ایسا علاقہ جو خوبصورتی کی وجہ سے کم اور تنازعات کی وجہ سے زیادہ خبروں میں رہتا ہے۔ پاڑا چنار شہر کی وجہ تسمیہ ’ملک پاڑے‘ حمزہ خیل قبیلے کے ’پاڑے خیل‘ شاخ کے ایک معتبر ملک تھے اور انھوں نے 200 سال پہلے چنار کا یہ پودا لگایا تھا اور یہ پورا صحرا بھی ان لوگوں کی ملکیت ہے۔
اس خوبصورت علاقے کا امن اور خوبصورتی شاید کچھ دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہ بھائی اور پھر یوں ہوا کہ قلم تھامنے والوں کے ہاتھوں میں اسلحہ اور رباب سے سر بکھیرنے والوں کے ہاتھ بندوقیں آ گئیں۔ فرقہ ورانہ قتل و غارت کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو دو دہائیوں تک جاری رہا اور جس کی لپیٹ میں بالخصوص پارا چنار اور بالعموم ضلع کرم آ گیا۔ 2015ء میں پاک فوج کی کوششوں سے امن قائم ہوا اور اب پارا چنار میں معمولاتِ زندگی بحال ہوئے۔ زندگی کی پو پھوٹنے لگی اور رفتہ رفتہ وہ زخم بھرنے لگے جو کئی سالوں سے رس رہے تھے۔۔
امید کی کرنیں پھوٹنے لگیں، عوام کے حواس پر چھائے خوف کے سائے دور ہونے لگے۔ یہ غالباً 2021 کا زمانہ تھا جب کمال مسیح کے گھر کے دیے سے وہ لو پھیلی جس سے غیر مسلموں سے زیادہ مسلم کمیونٹی خوش ہوئی۔ روشنی کی اس کرن کا نام ہے ماریہ کمال جنھوں نے تعلیم جیسے شعبے میں قدم رکھا اور ہر اس انسان کیلئے مسیحا بن گئیں جو علم کا شائق ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے ضلع کرم کے صدر مقام پاڑا چنار میں تاریخ میں پہلی بار مسیحی خاتون ماریہ کمال کو بطور استاد بھرتی کیا گیا۔ بقول ماریہ کمال انکی تعیناتی سے میسحی کمیونٹی سے زیادہ خوشی اس علاقے کے مسلم افراد کو ہوئی۔
پاڑا چنار کی یہ بیٹی ایک بیٹی، استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ماں کے فرائض بھی بھرپور طریقے سے سرانجام دے رہی ہیں۔ ماریہ کے والدین نے انکے بی اے کرنے کے بعد اپنے فرض سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا اور ماریہ کو نیک تمناؤں میں رخصت کر دیا لیکن اپنی بیٹی کے تعلیم حاصل کرنے کے شوق کو رکنے نہیں دیا۔
والدین وہ شجر ہیں جنکے گھنے سائے تلے بچے زندگی کی ہر تلخ حقیقت اور رویے سے محفوظ رہتے ہیں۔ کمال میسح اور انکی زوجہ کا شمار بھی ایسے ہی والدین میں ہوتا ہے جو ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر کے بچوں کے شوق کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ماریہ کمال کے مطابق انکے والدین نے پڑھائی میں ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی جس کی بدولت وہ ایم اے پولیٹیکل سائنس کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
ٹیوشن پڑھانے سے تعلیم کو فروغ دینے کا آغاز کرنے والی ماریہ نے اس عزم کے ساتھ کہ انہوں نے علاقے کی پہلی غیر مسلم ٹیچر بن کر رہنا ہے کوششوں کا آغاز کیا۔
انکی یہ کوشش، محنت اور لگن اس وقت رنگ لائی جب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر پاڑا چنار کی جانب سے گریڈ 12 میں ماریہ کمال کی تعیناتی کے احکامات جاری ہوئے۔
ماریہ کمال کا کہنا تھا کہ “جب میری سلیکشن ہوئی اور میں نے اپنے والدین کو آگاہ کیا تو ان کی خوشی ناقابل بیان تھی لیکن میری تعیناتی پر مسیحی کمیونٹی سے زیادہ پاڑا چنار کے مسلم عمائدین خوش ہوئے۔ ہر ایک نے مبارک باد دی اور بہت زیادہ سراہا”۔
پاکستان میں موجود کچھ شرپسند عناصر جہاں اقلیتوں کے حقوق کو لیکر پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے ایجنڈے پر کار فرما ہیں وہیں ماریہ کمال کے یہ قیمتی الفاظ پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کو دکھائے جانے کے لائق ہیں کہ:
“ممکن ہے ملک کے دیگر حصوں میں مسیحی برادری کو کچھ مشکلات کا سامنا ہو لیکن پاڑا چنار میں ہماری جان و مال، عزت و آبرو محفوظ ہے۔”
ماریہ کمال کی حقیقی کہانی میں کئی اہم پیغامات پوشیدہ ہیں۔ زندگی کا ایک قیمتی راز یہ ہے کہ انسان اپنی محنت اور لگن سے جو مقام چاہے پا سکتا ہے۔ دوسرا اہم راز یہ ہے کہ دین اسلام میں اقلیتوں کی جان و مال عزت و آبرو اتنے ہی قابل احترام ہیں جیسے مسلمانوں کے اور یقیناً پاڑا چنار کی غیور عوام اسلام کے درس پر پورا عمل کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
تیسرا راز والدین کے کردار کا ملتا ہے جو اپنی اولاد بالخصوص بیٹی کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے ان مشکلات و مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں جو انکی اولاد کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔
ماریہ یقیناً پاکستان کی ہر بیٹی کیلئے ایک مثال ہیں اور ان کی کہانی پاکستان کی ہر خاتون کو سنانی چاہیے تاکہ ہر بہن / بیٹی اپنے مستقبل کا تعین کر سکے۔