Connect with us

سیاست

پاک افغان خواتین کا سانجھا دکھ “غگ و سوارا” ہ

Published

on

تخلیق کائنات کا سب سے خوبصورت رنگ رب کائنات نے صنف نازک میں بھرا ہے۔ عورت کے خمیر میں وفا، محبت، شفقت روز اول سے ہی موجود ہے۔
دنیا کے ہر رشتے میں اس کی محبت کا رنگ جھلکتا ہے۔ عورت بیٹی کے روپ میں ہے تو رحمت بن کر نازل ہوتی ہے ، ایسی رحمت جو پورے گھرانے کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ وہ ماں کی سہیلی اور والد کے آنسو ہو چھنے والی ہوتی ہے۔
وہ گر بہن کے روپ میں جلوہ گر ہے تو بھائیوں کی ڈھال بھی ہے انکی عزت اور مان بھی ہے۔ وہ دنیا کا ہر سکھ اپنے بھائیوں پر نچھاور کرنے کو تیار رہتی ہے۔ وہ اگر بیوی ہے تو بہترین رازداں ہے، وہ سکھ دکھ کی ساتھی اور زندگی کی گاڑی کو ساتھ ملکر چلانے والی ہمدرد ہے۔ اور گر وہ ماں ہے تو جنت اسکے قدموں تلے ہے۔ جسکی خوشیوں کا محور اسکا گھر ہے، وہ بچوں کی حفاظت، تعلیم و تربیت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی۔
لیکن بدقسمتی سے تصویر کا دوسرا رخ بڑا بھیانک ہے۔ رشتے رب نے بنائے لیکن انسانوں کے فرسودہ روایات نے تباہ کر دیے۔ بکھیر دیا رشتوں کو جب یہی عورت کبھی غیرت کے نام پر قتل کوئی تو کبھی غگ و سوارا کی نذر ہوئی۔
پاکستان اور افغانستان نہ صرف جغرافیائی طور پر مماثلت رکھتے ہیں بلکہ یہاں کی خواتین کے دکھ بھی سانجھے ہیں۔ پشتون قبائل بارڈر کے دونوں جانب آباد ہیں اور کئی قبائل دور جدید میں بھی فرسودہ رسم و رواج کے پابند دکھائی دیتے ہیں۔
انہی فرسودہ روایات میں غگ اور سوارا دو رسوم شامل ہیں۔ غگ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آواز لگانے یا اعلان کرنے کے ہیں۔ اس فرسودہ رسم کے مطابق برادری کا کوئی شخص کسی خاتون سے شادی کا اعلان کرتا ہے تو برادری کا کوئی اور شخص اس خاتون کے لیے رشتہ نہیں بھجواتا اور اس خاتون کے لیے شادی کے رشتے آنا بند ہو جاتے۔ روایات کے مطابق اس سارے عمل میں خاتون، اس کے والدین یا رشتہ داروں کی رضامندی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
پشاور کے علاقے بڈھ بیر کا رہائشی عبد الرحیم کی بیٹی ناہید ہو یا پھر افغانستان کے علاقے خوست کی بدری کی ہمسائی لڑکی ہو دونوں کی زندگیاں غوگ جیسی مکروہ و فرسودہ رسم کی وجہ سے داؤ پر لگ چکی ہیں۔
غوگ کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب ایک شخص کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن گھر والے رشتہ دینے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔ لڑکا تشدد کی راہ اختیار کرتے ہوئے لڑکی کے گھر کے سامنے فائر کرتا ہے اور چیخ کر اعلان (غگ) کرتا ہے کہ فلاں لڑکی ’میری‘ ہے۔ بعد ازاں اس فرسودہ رسم کا شکار ہونے والی لڑکی کو’غگ کی شکار لڑکی‘ کہا جاتا ہے اور کوئی بھی اس سے شادی پر آمادہ نہیں ہوتا۔
کھلے عام ایک لڑکی کی عزت و زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے لیکن انسانوں کی ان بستیوں میں کوئی ایسا نہیں جو اس غیر اسلامی رسم کے خلاف آواز بلند کر سکے۔
جاہلیت کے دور کی معلوم ہوتی دوسری رسم “سوارا” ہے جہاں مردوں کے مابین ہونے والے جھگڑے، تضاد ، تصادم یا خاندانی تنازع کو ختم کرنے، یہاں تک کہ کسی کو خون بہا دینا ہو، کسی کو بدکاری یا بدفعلی کے الزام سے رہائی دلانی ہو یا کسی مجرم کو راہ فرار اختیار کروانا مقصود ہو تب لڑکیوں یا خواتین کو مخالفین کے روبرو پیش کر دیا جاتا ہے۔سوارا جو عرف عام میں ”ونی“ بھی کہا جاتا ہے۔ ان بے گناہ مظلوم خواتین کو مخالفین میں سے کسی بھی مرد کو بطور دلہن پیش کیا جاتا ہے۔ اس رسم کے تحت بیاہی جانے والی دلہنوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ اکثر و بیشتر ایسے مردوں کے حوالے کی جاتی ہیں جو دلہن کے مقابلے میں بہت بڑی عمر کے ہوتے ہیں۔
سن 2004ء میں ونی یا سوارا کے خلاف پارلیمنٹ نے باقاعدہ قانون سازی کی اور تعزیرات پاکستان اور پاکستان پینل کوڈ کے قوانین میں ترمیم کی گئیں جس کے تحت اسے قابل جرم قرار دیتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 310اے کا اضافہ کیا گیا جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ خواتین کو” بدل صلح“ کی شکل میں پیش کرنا قانوناً جرم ہے جس کی سزا کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 10سال ہوگی۔
دنیا جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہے جبکہ افغانستان اور پاکستان کے بعض قبائل اب بھی دور جاہلیت میں جی رہے ہیں۔ دور جاہلیت میں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنے کا رواج تھا جبکہ دور جدید کے کچھ قبائل میں بیٹیوں کو بالغ ہو جانے پر عمر بھر کی اذیت جھیلنے کیلئے ان رسوم کے تحت پابند کر دینے کا رواج ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان فرسودہ رسوم کے خلاف بنائے گئے قوانین کو لاگو کیا جائے، مجرموں کو سخت سزا دے جائے اور بیٹیوں کو ان فرسودہ رسومات کی بیڑیوں سے آزاد کروایا جائے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *