سیاست
ایسا دسمبر پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے, سانحہ آرمی پبلک اسکول میں ماں کے کردار میں ڈھلنے والی خواتین

کرہ ارض کو وجود میں آئے ہزاروں سال ہو چکے۔ اس سیارے نے اپنے ابتدائی مراحل سے لیکر اب تک ان گنت واقعات کا مشاہدہ کیا جن میں کئی قابلِ ذکر خوفناک جنگیں بھی ہیں، کہیں ایٹمی دھماکے بھی ہیں تو کہیں قدرتی آفات سے ہوئی تباہی بھی ہے۔م لیکن ہر بار نظام شمسی کے اس سیارے نے زندگی کے تلخ واقعات کو اپنے اندر سمو کر سفر جاری رکھا۔
زمین پر موجود ہر ملک اور ہر قوم کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ تاریخ کے کچھ ہندسے کسی کیلئے خوشی تو کسی کے لیے غم کا باعث بنتے ہیں جیسے 11 ستمبر امریکہ اور پاکستان دونوں کی تاریخ کا اچھا دن نہ تھا۔ پاکستان نے اپنے قائد محمد علی جناح کو کھویا تو امریکہ میں دہشتگردی کا بڑا واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح 25 دسمبر کو جہاں پاکستان کی عوام اپنے بانی پاکستان کا یوم پیدائش مناتی ہے وہیں پوری دنیا کی مسیحی برادری یسوع مسیح (حضرت عیسیٰ) کی یوم پیدائش کا تہوار مناتے ہیں۔
ہمارے سیارے زمین کو 16 دسمبر کا ہندسہ شاید کچھ راس نہیں آیا۔ 1971 میں ہوئے سقوط ڈھاکہ کا غم ابھی دلوں میں تازہ تھا کہ 2014 کا 16 دسمبر کا سورج بھی خوفناک منظر یادوں میں محفوظ کیے غروب ہو گیا۔
یہ آرمی پبلک اسکول پشاور تھا جو کچھ ہی دیر میں دنیا کے ہر نیوز کی ہیڈ لائن بن گیا۔ ساڑھے دس بجے کے قریب جہاں اسکول میں واقع آڈیٹوریم میں فرسٹ ایڈ سے متعلق تربیت دی جا رہی تھی وہیں کچھ ناپاک دہشتگرد عناصر خون کی ہولی کھیلنے کی غرض سے گاڑی سے اترے۔ انسانیت کے لفظ سے ناآشنا دہشتگردوں نے ظلم کی وہ داستان رقم کی جس پر ہلاکو خان بھی شرما جائے۔ دہشتگردوں کا مقصد بچوں کا خون بہا کر قوم کی ماؤں کو ڈرانا تھا کہ وہ اپنی اولاد کو حصولِ علم سے دور رکھ سکیں تاکہ یہ بچے دہشتگردوں کا مقابلہ اپنے قلم سے نہ کر سکیں۔
132 بچوں سمیت 149 افراد دہشتگردوں کی درندگی کا نشانہ بنے۔ دلوں کو دہلا دینے والے یہ سانحہ دنیا کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اس سانحے نے ہر آنکھ اشک بار کر دی۔ پوری دنیا سے معصوم بچوں کے اہلخانہ سے تعزیت کی جانے لگی یہاں تک کہ دشمن ملک بھارت کے بڑے بڑے نامور افراد نے اپنی سوشل میڈیا سائیٹس پر دلی رنج و غم کا اظہار کیا۔
اس واقعے سے جہاں دہشتگردوں کا مکروہ چہرہ بینقاب ہوا وہیں کچھ ایسی دلیر خواتین منظر عام پر ائیں جو لفظ ماں کے کردار میں ڈھل گئیں۔
ان ناموں میں ایک نام اسکول کی پرنسپل محترمہ طاہرہ قاضی کا ہے جو ایک استاد سے ماں کے کردار میں اس وقت ڈھل گئیں جب انکے شاگرد دہشتگردوں کے نشانے پر تھے۔
مردان میں آنکھ کھولنے والی صنف آہن کی فرض شناسی برسوں یاد رکھی جائے گی۔ بہادر خاتون نے اپنی جان قربان کردی لیکن دہشت گردوں اور بچوں کے بیچ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی رہیں۔ محترمہ طاہرہ قاضی عسکریت پسندوں کے سامنے کود پڑیں اور کہا ، “میں ان کی ماں ہوں۔ مجھ سے بات کرو۔” پرنسپل کو فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل کی شریک حیات ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر انکے طلباء کے سامنے آگ لگا دی گئی تھی۔
ایک عینی شاید کے مطابق حملے کے دوران طاہرہ قاضی نے متعدد طلبا کو محفوظ مقام پر پہنچایا اور بچوں کے والدین کو فون کر کہ مطلع کیا کہ وہ سکول آ کر بچوں کو لے جائیں۔
قوم کی اس فرض شناس ماں، معلمہ طاہرہ قاضی کو لنڈی ارباب گاؤں میں سپرد خاک کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے محترمہ طاہرہ قاضی کو انکی بےپناہ جرات کی بنا پر 2015ء میں ستارہ شجاعت سے نوازا۔
دلیر اور فرض شناس خواتین میں دوسرا نام شہناز نعیم (سربراہ کمپیوٹر سائنس) کا آتا ہے۔ محترمہ شہناز نعیم اپنے طلبا کو دہشتگردوں کی بربریت سے محفوظ رکھنے کیلئے اس وقت تک لڑتی رہیں جب تک شہادت کو گلے نہیں لگا لیا۔ انکو اس وقت گولی مار کر شہید کیا گیا جب وہ تمام بچوں کو سکول سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ وہ آخری سانس تک حملہ آوروں کے سامنے کھڑی رہیں اور بچوں کی ڈھال بنی رہیں۔
پشاور کی 28 سالہ بینش عمر بھی اے پی ایس کے ان اساتذہ میں شامل تھیں جو دہشت گردی کے باعث لقمہ اجل بن گئیں۔ تین بیٹیوں کی ماں نے جب دنیا کو الوداع کہا تو ان کی چھوٹی بیٹی شیرخوار تھی۔
سیدہ فرحت حافظ قرآن، ایم اے اسلامیات، ایم اے عربی اور بی ایڈ تھیں۔ ان کے بیٹے بھی اے پی ایس میں زیر تعلیم رہے۔ سانحہ اے پی ایس میں وہ شہید ہوئیں جبکہ ان کے دونوں بیٹے زخمی ہوئے۔
شہدا کی فہرست میں شامل حفصہ خوش جوان سال ٹیچر تھیں۔ انکی منگنی ہو چکی تھی لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور دہشتگردوں کی سفاکیت کا نشانہ بن گئیں۔
اسی طرح کرک کی شازیہ گل خٹک چھ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھیں۔ اپنے طالب علموں کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آنے والی استاد پر دہشتگردوں نہ کوئی شفقت نہ برتی اور شہید کر دیا۔
فہرست میں شامل حاجرہ شریف صوم و صلات کی پابند تھیں۔ بیالوجیکل سائنس میں بی ایس سی اور اسلامیہ کالج پشاور سے کیمسٹری میں ماسٹرز کرنے والی حاجرہ بھی دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنیں اور جانبر نہ ہو سکیں۔
کالج تقریبات کی میزبانی کرنے والی، مضمون نویسی، بیت بازی اور مباحثوں پر عبور رکھنے والی سحر افشاں بھی اس سانحے میں ہم سے بچھڑ گئیں۔
آٹھویں جماعت کی کلاس ٹیچر صائمہ طارق کو عینی شاہدین کے مطابق دہشت گردوں نے شناخت کے بعد جلا دیا تھا۔ انکی شناخت یہ تھی کہ وہ پاک فوج کے بریگیڈیر طارق سعید کی شریک حیات تھیں۔
اس دلخراش واقعے میں لیکچرار محمد سعید اور لیکچرار نواب علی نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
سانحہ اے پی ایس نے جہاں دہشتگردوں کے مکروہ چہروں کو بینقاب کیا وہیں دلیر خواتین کا خوبصورت تصور حقیقت کا روپ دھارے سامنے آیا ۔ ایسی خواتین جنھوں نے قوم کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھا اور انکی خاطر جان دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ اللہ سے دعاگو ہے پوری قوم کہ ایسا دسمبر پھر کبھی لوٹ کر نہ ائے