Connect with us

سیاست

باسمتی چاول پر چھڑی پاک بھارت جنگ پاکستان جیت گیا

Published

on

تحریر : ارم نیاز

جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف پاکستان اور بھارت کئی جنگوں اور میدانوں میں پنجہ آزمائی کر چکے ہیں۔ 65 کی جنگ ہو، کرکٹ کا میدان ہو، ٹینس کا کورٹ ہو یا پھر ہاکی کا میچ ان دو روایتی حریفوں کی ٹکر ہمیشہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ ٹاکرا میدانوں سے نکل کر زرعی پیداوار تک جا پہنچا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین عالمی منڈی میں باسمتی چاول پر چھڑی جنگ بالآخر پاکستان جیت گیا۔
چاول ہر گھر کے دسترخوان کی زینت و رونق ہے۔ سادہ چاول ہو، پلاؤ ہو یا بریانی چاولوں کی خوشبو اور معیار کو ہمیشہ مقدم رکھا جاتا ہے۔ چاولوں کی اقسام میں باسمتی چاول کو الگ مقام حاصل ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں باسمتی چاول کی پیداوار سے لیکر برآمد کرنے تک کثیر زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کے چاول کی اجارہ داری پڑوسی ملک بھارت کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ نئی دہلی حکومت نے دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کے چاول کو (باسمتی) تسلیم کیا جائے۔ سنہ 2020 میں برآمد کنندگان نے پاکستانی کسانوں اور قومی خزانے کواربوں روپے کے نقصان سے بچانے کیلئے یورپی یونین میں باسمتی چاول کے بھارتی دعوے کو باضابطہ طور پر چیلنج کر کے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کیا تھا اور عدالت نے باسمتی چاول کو پاکستان کی شناخت و پیداوار قرار دیا تھا۔ بھارت نے دو ماہ قبل ایک بار پھر اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے یورپی عدالت میں باسمتی چاول کے حقوق حاصل کرنے کی نئی درخواست دائر کی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ایک بار پھر بھارت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ رواں ہفتے باسمتی چاول پر چھڑی جنگ پاکستان نے جیت لی۔ ںیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے باضابطہ طور پر باسمتی کو پاکستانی مصنوعات کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے بھی پاکستان کے دعوے کی حمایت کا امکان ہے۔

تاریخ کے بند دریچوں کو کھولیں تو معلوم ہوتا ہے کہ باسمتی چاول اصل میں حافظ آباد، پاکستان کی پیداوار ہے۔ 1960 میں حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے کرنل مختار حسین نے باسمتی چاول کا نیا بیج دریافت کیا۔ اس بیچ کی کاشت سے باسمتی چاول کی جو فصل تیار ہوئی وہ معیار میں بہت اعلیٰ اور خوشبودار تھی۔ اپنے معیار اور خوشبو کی وجہ سے یہ چاول جہاں بہت مقبول ہوا وہیں اس کی پیداوار بھی بڑھی۔

پاکستانی تاجروں کے مطابق انڈیا کے پاس باسمتی ہے ہی نہیں۔ پاکستانی باسمتی کی ڈیمانڈ عالمی مارکیٹ میں بڑھ چکی ہے۔ پاکستانی باسمتی کی برآمد 4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور چاول کی 27 ارب ڈالر کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان بڑا حصہ دار بن جاتا ہے۔۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کے نام کی گونج اور پاکستانی چاول کی اجارہ داری بھارت کیلئے ڈراؤنا خواب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستانی باسمتی دبئی جاتا ہے وہاں پاکستانی چاول کو بھارت اپنا برانڈ بنا کر آگے دے دیتا ہے تاکہ عالمی مارکیٹ میں باسمتی چاول پر اپنا حق ملکیت ظاہر کر سکے۔ (کچھ ایسا ہی معاملہ پنک سالٹ کا بھی ہے۔) بھارت نے مکمل ملکیت لینے کی کوشش کی لیکن ماہرین اور تاجروں نے ثابت کر دیا کہ اس پر پاکستان کا حق ہے۔
باسمتی چاول کی پیداوار کا تاریخی علاقہ چناب اور ستلج دریاؤں کا درمیانی حصہ ہے۔ پاکستان میں سیالکوٹ، نارووال، شیخوپورہ، گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤالدین اور حافظ آباد کے اضلاع باسمتی چاول کی پیداوار کے حوالے سے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا میں مشرقی پنجاب، ہریانہ، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کو دی گئی بھارتی معلومات کے مطابق 1965 سے پہلے بھارت سے باسمتی چاول کا ایک دانہ بھی برآمد نہیں کیا گیا جبکہ پاکستان 1960 میں یورپ اور خلیجی ممالک سمیت دیگر ممالک کو باسمتی برآمد کرتا تھا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ 1965 کی جنگ میں شکر گڑھ کے کچھ علاقے جب بھارت کے قبضے میں گئے تو بھارتی فوجی، گوداموں سے کرنل باسمتی چاول اٹھا کر لے گئے۔ بعد ازاں اسکی کاشت گورداسپور اورگرد و نواح کے علاقوں میں کی لیکن چونکہ زمین زمین کا بھی فرق ہوتا ہے اسلیے بھارت پاکستانی باسمتی جیسا چاول پیدا ہی نہ کر سکا اور جو پیداوار ہوئی وہ کوالٹی، رنگ اور خوشبو کے لحاظ سے پاکستانی باسمتی چاول کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی۔
عالمی منڈی میں پاکستانی باسمتی چاول کا حق ملکیت حاصل کرنے کے بعد امید ہے کہ جلد ہی پنک سالٹ بھی پاکستانی برانڈ کے طور پر سامنے آئے گا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *