Connect with us

سیاست

بھارت کے اثر سے آزادی, بنگلہ دیش کا نیا رخ

Published

on

تحریر: علی آفریدی

پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات ایک نیا موڑ لے رہے ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیشی فوج کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، جہاں ان کی ملاقات آرمی چیف اور دیگر سینئر
حکام سے ہوئی۔ دونوں ممالک نے بات چیت کے دوران فوجی تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے، خاص طور پر اس لیے کہ ماضی میں بنگلہ دیش زیادہ تر بھارت کے زیر اثر تھا اور اس کی خارجہ پالیسی بھارتی مفادات کا عکس ہوتی تھی۔ حسینہ واجد کے 12 سالہ اقتدار میں دونوں ممالک کے تعلقات تقریباً ختم ہو گئے تھے، اور کسی قسم کے تعاون یا روابط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ بنگلہ دیش نے عالمی فورمز پر بھی بھارت کی طرح پاکستان کی مخالفت کی۔ لیکن حسینہ واجد کے جانے کے بعد، حالات میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اب نہ صرف تعلقات دوبارہ بحال ہو رہے ہیں بلکہ تعاون کے نئے دروازے بھی کھل رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کو اپنے دفاعی نظام کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے، خاص طور پر لڑاکا طیاروں کے حوالے سے۔ پہلے یہ ضرورت بھارت پوری کرتا تھا، لیکن اب اس پر انحصار کم ہو رہا ہے۔ حسینہ واجد کے دور میں بھارت کے قریب ہونے کی پالیسی کے برعکس، موجودہ عبوری حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہی ہے۔ دوسری طرف، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں، اور پاکستان اس خلا کو پر کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ حالیہ ملاقاتوں میں دونوں ممالک نے بیرونی مداخلتوں سے نمٹنے کا عزم ظاہر کیا، جو ان کے بڑھتے ہوئے تعاون کا ایک اور ثبوت ہے۔

بنگلہ دیش کو بنیادی طور پر دو ہمسایوں سے خطرہ ہو سکتا ہے: بھارت اور میانمار۔ میانمار کی جانب سے کوئی بڑی مداخلت کم ہی ممکن ہے، لیکن بھارت کے ساتھ کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں سرحد پر کئی تنازعات سامنے آئے ہیں۔ عبوری حکومت نے بھارت پر الزام لگایا ہے کہ وہ سرحدی معاہدوں میں بنگلہ دیش کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس کے جواب میں بنگلہ دیش کی فورسز نے بھارت کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کی کوششوں کو روک دیا۔ ان حالات میں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتا ہوا فوجی تعاون خطے میں نئی سفارتی حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔

ایک اور اہم تبدیلی یہ ہے کہ جہاں بنگلہ دیش ماضی میں بھارت کے ساتھ مل کر میانمار سے نمٹتا رہا، اب وہ پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات کو ترجیح دے رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ تجارتی تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، بنگلہ دیش پاکستان سے بڑی مقدار میں چاول درآمد کرنے جا رہا ہے۔ ثقافتی تعلقات بھی بحال ہو رہے ہیں، جو حسینہ واجد کے دور میں معطل ہو چکے تھے۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیشی عوام نے پاکستانی گلوکاروں اور فنکاروں کو بڑی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا ہے۔

یہ تمام تبدیلیاں خطے میں طاقت کے نئے توازن کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بھارت، جو ماضی میں بنگلہ دیش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا تھا، اب ایسی صورتحال سے دوچار نہیں ہو سکے گا۔ بھارت کے ساتھ تجارتی عدم توازن بنگلہ دیش کی پالیسی میں تبدیلی کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ جیسے جیسے بنگلہ دیش بھارت پر انحصار کم کر رہا ہے، دیگر ممالک کے لیے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے والوں میں پاکستان ایک اہم شراکت دار کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *