سیاست
ٹرمپ، تبدیلی اور قیادت کی طاقت
تحریر : علی آفریدی
قیادت کا اثر ہر ملک میں مختلف ہوتا ہے۔ اگر کسی اور ملک کا صدر بدل بھی جائے تو شاید دنیا کو کوئی خاص فرق نہ پڑے، لیکن جب امریکی صدر بدلتا ہے، تو دنیا کا منظرنامہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ امریکی صدر نہ صرف راستے متعین کرتا ہے بلکہ حکمتِ عملی بدلتا ہے اور طاقت کا توازن بھی ترتیب دیتا ہے۔ جان ایف کینیڈی کے بعد ڈونلڈ جے ٹرمپ وہ واحد امریکی صدر ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف اقتدار میں آئے۔ بلکہ، ٹرمپ نے تو کینیڈی سے بھی آگے بڑھ کر وہ سب کر دکھایا جس کی کسی نے توقع بھی نہیں کی تھی۔ انہوں نے دو مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ خواتین کو شکست دی، حالانکہ ان خواتین کو میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
اب دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکی سیاست میں ٹرمپ کا اثر نمایاں ہو چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں روکنے کے لیے مقدمات بنائے، سازشیں کیں، یہاں تک کہ قاتلانہ حملے بھی ہوئے، مگر ٹرمپ ڈٹے رہے۔ اب امریکا ٹرمپ کی شرائط پر چلے گا۔ وہ امریکی عوام کے لیے بہتر فیصلے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری ختم کرنا چاہتے ہیں اور غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلے پر سخت اقدامات کرنے کے خواہاں ہیں۔
عالمی سطح پر بھی ٹرمپ امن، جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار کے حامی ہیں۔ ان کی حکمت عملی نے طاقتور ممالک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ان کی پالیسیوں کے نفاذ سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا، اور اسرائیل کے نیتن یاہو نے ان کے دباؤ پر جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔
پاکستان کی صورتحال کو دیکھیں تو ٹرمپ کی مثال یہاں بھی دی جا سکتی ہے۔ یہاں بھی ایک مقبول عوامی لیڈر کو جھوٹے مقدمات، قاتلانہ حملوں اور طاقتور حلقوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ جس طرح ٹرمپ نے انصاف کی جدوجہد کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل کی، پاکستان کا یہ عوامی رہنما بھی اپنی راہ پر گامزن ہے۔ ٹرمپ کو پاکستانی سیاسی حالات سے آگاہ کیا جا چکا ہے، اور وہ جانتے ہیں کہ یہاں کیسے انتخابات چرائے جاتے ہیں، حقوق پامال کیے جاتے ہیں، اور طاقتور لوگ کس طرح ظلم اور جبر کا ساتھ دیتے ہیں۔
آخر میں، ان حالات کی تلخی کو بیان کرتے ہوئے یہ اشعار پیش ہیں
دیے تو جلا لیے اندھیروں میں ہم نے
مگر روشنی کا خواب ادھورا رہ گیا۔
چند لوگ ہی کافی ہیں بدلنے کو زمانہ
یہ دنیا ہمیشہ انقلاب سے روشن ہوئی ہے۔
