سیاست
افغانستان ماضی، حال اور مستقبل کا جائزہ
افغانستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ خطہ ہمیشہ سے مختلف سلطنتوں اور قوموں کا مرکز رہا ہے، لیکن آج جو افغانستان ہم دیکھتے ہیں، اس کی بنیاد 1747ء میں احمد شاہ ابدالی نے رکھی۔ اس سے پہلے یہ خطہ سامانیوں، غزنویوں، غوریوں، مغلوں، اور حتیٰ کہ منگولوں کے زیرِ تسلط رہا۔ تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ جن شخصیات کو آج افغان ہیروز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جیسے محمود غزنوی یا شہاب الدین غوری، ان کا تعلق دراصل وسطی ایشیا سے تھا اور وہ افغان نہیں بلکہ ترک یا دیگر قوموں سے تھے۔
محمود غزنوی، جو 971ء میں غزنی میں پیدا ہوئے، اپنی بہادری اور جنگی فتوحات کے لیے مشہور ہیں، لیکن وہ ایک ترک باپ کے بیٹے تھے۔ ان کے ہندوستان پر کیے گئے 17 حملے مذہب سے زیادہ سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے تھے۔ اسی طرح شہاب الدین غوری، جنہوں نے غورستان میں اپنی سلطنت قائم کی، نہ صرف ہندوستان بلکہ افغانستان پر بھی قابض رہے، لیکن ان کا تعلق بھی افغان قوم سے نہیں تھا۔
1747ء میں احمد شاہ ابدالی نے جدید افغانستان کی بنیاد رکھی۔ وہ پشتون تھے اور ملتان میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے انہیں افغان پشتون کہا جا سکتا ہے۔ ان کے بعد افغانستان پر ازبک، مغل، اور تاتاری حکمرانوں نے بھی حکومت کی، جن کا تعلق وسطی ایشیا سے تھا۔
آج اگر افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی بات کریں تو یہ تناؤ کا شکار ہیں۔ حالیہ دنوں میں افغانستان کے ایک وزیر نے پاکستان کو دھمکی دی کہ جن میزائلوں کے نام غزنوی، غوری، اور ابدالی پر رکھے گئے ہیں، وہ افغان ہیں اور آج بھی لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ تاریخی حقائق کے برعکس ہے کیونکہ غزنوی اور غوری افغان نہیں بلکہ غیر ملکی حکمران تھے، اور ان کا افغانستان پر قبضہ اس طرح ہی تھا جیسے دیگر قابض اقوام کا۔
پاکستان کی قربانیوں کی بات کی جائے تو طالبان حکومت کو سہارا دینے میں پاکستان نے ناقابلِ یقین کردار ادا کیا۔ گزشتہ 20 سالوں میں طالبان کے اہم رہنما پاکستان میں پناہ لیتے رہے۔ ان کے 54 ہزار زخمیوں کا علاج، رہائش، اور مالی امداد پاکستان نے فراہم کی۔ یہاں تک کہ دوحہ مذاکرات کے دوران طالبان رہنماؤں کو قطر لے جانے اور ملاقاتوں کا انتظام بھی پاکستان کے ذمے تھا۔ لیکن آج یہی طالبان حکومت پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس رویے کی ایک بڑی وجہ طالبان کی بھارت اور امریکا کے ساتھ قربت ہے۔ امریکا نے 2013ء میں طالبان سے دوحہ میں دفتر کھلوایا اور ان پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے ان کی معلومات جمع کیں۔ بھارت بھی اس دوران طالبان سے تعلقات مضبوط کرتا رہا، حتیٰ کہ طالبان کے ایک وزیر نے یہ اعتراف کیا کہ “پاکستانی ہمارے پاس مشورے لے کر آتے ہیں، جبکہ بھارتی نوٹوں سے بھرے بریف کیس لاتے ہیں۔” اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان کس طرح مالی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
طالبان حکومت کے اندر بھی اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ حقانی گروپ، جو پاکستان کے قریب سمجھا جاتا ہے، اور قندہاری گروپ، جس کے بھارت سے قریبی تعلقات ہیں، کے درمیان طاقت کی کشمکش جاری ہے۔ قندہاری گروپ کے رہنما ملا یعقوب، جو وزیر دفاع ہیں، بھارت کی مالی امداد کے ذریعے اپنی پوزیشن مضبوط کر رہے ہیں۔ دسمبر 2024ء میں حقانی گروپ کے ایک اہم رہنما حاجی خلیل حقانی کو قتل کر دیا گیا، اور اس قتل کا الزام بھارت پر لگایا جا رہا ہے۔
طالبان اور پاکستان ایک کڑوا سچ
پاکستان، جو افغانستان کو اندر سے بہتر جانتا ہے، اب بھی طالبان حکومت کے ساتھ نرمی برت رہا ہے۔ اگر پاکستان چاہے تو طالبان حکومت کو چند دنوں میں ختم کر سکتا ہے، لیکن خطے کے استحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان اب بھی تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تاہم، اگر طالبان کا رویہ یہی رہا تو پاکستان کو اپنی پالیسی بدلنی پڑے گی، اور اس کے نتائج افغانستان کے لیے سخت ہو سکتے ہیں۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ تاریخ کے یہ سبق نظرانداز نہیں کیے جا سکتے کہ اقتدار اور تعلقات ہمیشہ مالی اور سیاسی مفادات پر منحصر رہتے ہیں۔
