سیاست
پاکستان، افغانستان ، فتنہ الخوارج اور جید علماء کرام
تحریر : ارم نیاز
اچھے اور نیک ہمسائے رحمت خداوندی کی نشانی ہوتے ہیں۔ پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو یقین تھا کہ انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہونے کے بعد کوئی برا ہمسایہ ہو گا تو وہ بھارت ہو گا جو ہندو اکثریتی ملک تھا۔ اطمینان تھا کہ جس ملک کے ساتھ پاکستان کی طویل ترین بارڈر شئیر ہو رہی ہے وہ برادر اسلامی ملک افغانستان ہے۔ اخوت، ایثار و محبت کے جذبات سے سرشاری پاکستان کو اس وقت دھچکا لگا جب محض ایک سال بعد 1948 میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی ممانعت کرنے والا اور کوئی نہیں بلکہ افغانستان تھا، وہ واحد ملک جس نے پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا۔
ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جواب میں افغانستان کی جانب سے پاکستان کو ہمیشہ زخم ملے۔
کبھی پاکستان میں موجود اٹک تک کے علاقے کو اپنا حصہ ظاہر کرنے کی کوشش کرنا تو کبھی خیبرپختونخوا میں آزادانہ نقل و حمل کے لیے پر تولنے والے افغانستان نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ امن کو سبوتاژ کرنے کیلئے فتنہ الخوارج کی بھرپور نشو و نما و پرورش کی۔
یہ افغان حکومت کی پاکستان مخالف پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کا بازار ایک عرصہ دراز تک گرم رہا۔ بالآخر پاک فوج کی جوابی کاروائیوں نے فتنہ الخوارج کو نہ صرف پیچھے دھکیلا بلکہ سرزمین افغانستان سے ہونے والے حملوں کو آج بھی پسپا کیے ہوئے ہیں۔
فتنہ الخوارج کہ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ایک موقع پر فتنہ الخوارج کے امیر مفتی نور ولی محسود نے اپنے ایک بیان میں پاکستان کے خلاف مسلح کاروائیوں کے متعلق پاکستانی علماء کرام سے نا صرف رہنمائی لینے کی درخواست کی بلکہ پاکستان کے علماء کرام اور مدارس کے طلباء کو اپنے نام نہاد جہاد میں شمولیت کی دعوت بھی دی جس پر جہاں عوام ششدر رہ گئی وہیں جید علمائے کرام کی جانب سے سخت ردعمل آیا جس کو عوامی سطح پر بہت پذیرائی ملی۔مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے جوابی بیان میں مفتی نور ولی محسود کو تنبیہہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور عوام کے جذبات کی بھرپور نمائندگی کی۔ جنوری 2023 میں مستند و جید علماء کرام اور مشائخ نظام نے اپنے پہلے متفقہ فتوے ( پیغام پاکستان) کی بھرپور توثیق کی۔ اپنے خطاب میں مفتی اعظم نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا:
” پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس کا دستور اسکے مسلمان ہونے کی گواہی ہے اور اللہ نے ایس دستور عطا فرمایا ہے جو دنیا کے کسی اور ملک کے اندر نہیں پایا جاتا۔ ریاست پاکستان خلاف مسلح کاروائی ہماری نظر میں کھلی بغاوت ہے، جو حرام و ناجائز ہے اور ہم کبھی اس کی تائید نہیں کرتے”
مفتی تقی عثمانی صاحب کے نزدیک تحریک طالبان کا راہنمائی کا مطالبہ حیران کن تھا، اس سے قبل بھی ہم طالبان کے وفد سے براہ راست ملاقات کر کے انکو اپنے موقف سے آگاہ کر چکے تھے۔
مدارس کے بچوں کو نام نہاد جہاد میں شمولیت کے خلاف خیبرپختونخوا کے مولانا طیب قریشی نے نور ولی محسود کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ
“پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے دارالسلام ہے۔ پاکستان کی فوج اور پاکستان کو نقصان پہنچانا گویا غلام اسلام کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی، انتہا پسندی اور فوج مخالف کاروائیاں حرام ہیں۔”
جہاں افغانستان غیر شرعی امور میں مگن فتنہ الخوارج کے ساتھ کھڑا ہے، وہیں پاکستان کے جید علماء کرام اپنی بہادر افواج، ریاست اور ریاستی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے والی افغان حکومت کو چاہیے کہ پیغام پاکستان کی روشنی میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور راہنمائی کے لیے جید علماء کرام کے موقف کو بارہا سنے۔ اپنے برادر اسلامی ملک کے خلاف فتنہ الخوارج جیسی تنظیموں کو وقت طور پر تو آپ اپنے ہمسایہ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں لیکن مطلب پورا ہو جانے پر یہی آستین کے سانپ افغانستان کو ڈسنے سے باز نہ آئیں گے۔
