اہم خبریں
کیا کسی رکن اسمبلی نے کبھی آرمی ایکٹ پر اعتراض اٹھایا؟ سپریم کورٹ کا سوال
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے منگل کے روز فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے معاملے پر اہم سوالات اٹھائے، یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا کسی رکن قومی اسمبلی نے کبھی آرمی ایکٹ پر اعتراض کیا یا اس کے خلاف کوئی نجی بل پیش کیا؟
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے دوران سماعت فوجی قوانین کے تحت سویلین کے ٹرائل کی آئینی حیثیت پر بحث کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلین پر مقدمہ چلانے کا جواز کیا ہے، جبکہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے دہشت گردی سے متعلق سابقہ مقدمات کا حوالہ دیا جو فوجی عدالتوں میں چلے۔
پی ٹی آئی بانی کے وکیل، عذیر بھنڈاری نے دلائل دیے کہ فوجی عدالتوں کو سویلین پر اختیار حاصل نہیں اور عام عدالتوں میں ہی ان کے مقدمات چلنے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 8(3) کے تحت مسلح افواج کے اہلکاروں کو عام شہریوں کی طرح بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوتے۔
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے نشاندہی کی کہ آرمی ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے تحت سویلین کا ٹرائل اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کا جرم فوج سے جڑا ہو۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا فوج سویلین پر عدالتی اختیار رکھ سکتی ہے، اور اگر نہیں تو پھر کسی پر بھی نہیں رکھ سکتی۔
عدالت میں بین الاقوامی مثالوں پر بھی بحث ہوئی، بھارت کے آزاد ملٹری ٹریبونل اور کلبھوشن یادو کیس کا حوالہ دیا گیا۔ بینچ نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے پارلیمنٹ نے تیزی سے قانون سازی کی تھی۔
بھنڈاری نے اپنے دلائل کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا عمل خامیوں سے بھرا ہوا ہے اور یہ محض ایک “کاغذی کارروائی” کے سوا کچھ نہیں، جو شفاف ٹرائل کے اصولوں پر سوالیہ نشان ہے۔
