فن و ثقافت
جھیل کنارے بیٹھے سیف الملوک اور شہزادی بدر الجمال
تحریر : ارم نیاز
محبت اللہ کے عطا کردہ تحفوں میں سے ایک نہایت خوبصورت تحفہ ہے۔ حُب الٰہی تمام محبتوں کی اصل اور جڑ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت اور دین کی محبت کی نہریں بھی اسی سرچشمے سے نکلتی ہیں اور روحوں کو سیراب کر جاتی ہیں۔
عشق و محبت کا جذبہ انسان میں پیدا ہوا تو انسانوں کے آپسی محبت، عزت و احترام کے جذبات و احساسات دلوں میں موجزن ہوئے۔ یہ وہ جزبہ ہے ہے جو محض انسان سے انسان تک محدود نہیں رہتا بلکہ ہر جاندار کیلئے دلی وابستگی جیسے احساسات جنم لیتے ہیں۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اسی عشق نے کہیں تاج محل بنا ڈالا تو کہیں ہرن مینار۔
عشق و محبت کی لازوال داستانیں مشرق تا مغرب موجود ہیں ۔ ہیر رانجھا، لیلیٰ قیس، سسی پنوں کو ٹکر دینے کیلئے مغرب سے رومیو جولیٹ کی محبت کی داستان بھی تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ کسی بزرگ پیڑ تلے بیٹھ کر مقامی لوگ ان عاشقوں کی داستانیں تاجروں، سیاحوں سے سنا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہی داستان گوئی ایک آرٹ بن گیا اور لوگ داستانیں سنانے کے عوض اجرت لینے لگے۔
پھر یوں ہوا کہ قصہ گو نے کہیں مبالغہ آرائی سے کام لیا تو کہیں بالکل ہی خلاف فطرت ایسی کہانی بنا ڈالی کہ جس کو سن کر سننے والے ششدر رہ گیا۔ ایسی ہی ایک (من گھڑت) کہانی شہزادی بدر الجمال اور شہزادہ سیف الملوک کی بھی ہے۔ گو کہ کہانی من گھڑت ہے لیکن دلچسپ ہے۔ کوہ قاف کے شاہ پال دیو کی بیٹی، شہزادی بدر الجمال گویا حسن کی دیوی تھی۔ پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقام جھیل سیف الملوک کنارے پر اکثر ٹہلتی اس شہزادی پر اسی کے برادری کا ایک دیو ، دیوسائی ، عاشق تھا لیکن شہزادی اس کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ میلوں دور مصر میں اس وقت بادشاہ عاصم ( جو شاید مصریوں کو بھی معلوم نہیں کہ اس نام کا کوئی شخص کبھی انکا بادشاہ بھی گزرا ہے) کی حکومت تھی جسکے بیٹے شہزادہ سیف کو ایک رات خواب آتا ہے۔ خواب میں نہ صرف اسکو شہزادی بدر الجمال کا چہرہ دکھایا جاتا ہے بلکہ مصر سے جھیل تک کا راستہ بھی دکھایا جاتا ہے۔ شہزادہ خواب سے تو بیدار ہو گیا لیکن اس شہزادی کے عشق میں گرفتار ہو گیا جس سے وہ آج تک کبھی ملا ہی نہیں۔ شہزادے نے خواب کا تذکرہ اپنے والد سے کیا جس پر شاہ عاصم نے جواب دیا کہ وہ ناری مخلوق ہے اور تم خاکی ۔ ناری و خاکی مخلوق کیسے ایک بندھن میں بندھ سکتے ہیں۔ شہزادے نے مصمم ارادہ کیا اور تخت و تاج کو ٹھکرا کر شہزادی کی تلاش میں نکل پڑا۔ وہ خواب میں دکھائے گئے روٹ پر چلتا رہا (بلا کا ذہین تھا جو اتنا لمبا روٹ حفظ کر رکھا تھا) راستے میں پشاور، ایبٹ آباد ، مانسہرہ میں قیام بھی ضرور کیا ہو گا اور بالآخر جھیل تک پہنچ ہی گیا۔
حسن اتفاق دیکھیئے کہ شہزادی بدر الجمال جھیل کے پانی میں اتری ہوئی تھی جبکہ اس نے اپنے پر و لباس جھیل کنارے ہی چھوڑ رکھے تھے۔ شہزادہ چونکہ شریر تھا اسلیے اس نے شہزادی کا مطلوبہ سامان چھپا دیا۔ اپنے سامان کو نہ پا کر شہزادی پریشانی کا شکار ہوئی تبھی شہزادہ سیف نے شہزادی کو پہچان لیا۔ شہزادے نے سامان کی واپسی شادی سے مشروط کر دی۔ شہزادی نے شادی کی حامی بھری اور یوں محبت کی ایک نئی داستان نے جنم لیا۔ لیکن رقیب انسانوں ہی میں نہیں جنات و دیو میں بھی پائے جاتے ہیں۔ شہزادی پر عاشق دیو ایک انسان سے شہزادی کی بڑھتی محبت دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا۔ محبت میں ناکامی اور بدر الجمال کی انسان سے قربت کو دیوسائی برداشت نہ کر سکا اور اس نے پہاڑوں پر اپنا ہاتھ مارا جس کے نتیجے میں برفانی طوفان آیا اور شہزادی سیف اور شہزادی بدر الجمال برف تلے دب کر اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ظالم دیو کا کیا انجام ہوا یہ راز آج تک کسی قصہ گو نے نہیں بتایا ( شاید دیو کی ہیبت سے خوفزدہ ہیں کہ نام و انجام بتایا تو انجام سیف و بدر الجمال جیسا کرونگا)
من گھڑت کہانی سے اگر حقیقی زندگی میں آئیں تو جھیل سیف الملوک واقعی کی کسی پرستان کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں موجود یہ جھیل ہر سال لاکھوں سیاحوں کو خوش آمدید کہتی دکھائی دیتی ہے۔ ملکہ پربت کے پانیوں سے آباد اس جھیل کو دیکھ کر کبھی کبھی یہ کہانی کئی لوگوں کو سچی معلوم ہونے لگتی ہے اور جھیل کنارے بیٹھے زندگی کی فکروں سے آزاد محبت بھری نظروں سے دیکھنے والے جوڑے ہی شہزادہ سیف اور شہزادی بدر الجمال معلوم ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جھیل سیف الملوک کی رونقیں ماند پڑنے لگی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا دیوسائی کا طلسم کام کر گیا ہے اور اس پورے علاقے کی رونقیں مدہم ہو گئی ہیں۔ ایسا اسلیے ہے کہ آدم زادوں نے جب سے اس جھیل کا رخ کیا ہے کچرا پھیلانے والی فطرت سے باز نہیں آتے۔
صفائی ستھرائی کے ناقص نظام سے شاید کوقاف کی پریاں مطمئن نہیں ہیں اسلیے اب جھیل کنارے پریاں نہیں اترتی ہیں۔
بطور ذمہ دار شہری اپنا فرض نبھائیں، سیاحتی مقامات کو کچرے سے پاک رکھیں۔ سیاحت کو جانے والے افراد سے گذارش ہے کہ صفائی کا اہتمام اس بات کو سوچ کر ہی کر لیجئے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔
