Connect with us

فن و ثقافت

پشاور کا خاص بیٹا، محمد امر خان

Published

on

تحریر : ارم نیاز

قارئین میں سے بہت قلیل تعداد ہی اس حقیقت سے آشنا ہو گی کہ پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ سے زائد افراد مختلف قسم کی معذوریوں کا شکار ہیں۔ معذوری حادثاتی بھی ہو سکتی ہے اور پیدائشی بھی۔ ان اسپیشل پرسنز میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے اس فیصلے پر سر تسلیم خم کیے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ زندگی کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہیں اور پیروں پر کھڑی اس دنیا کا مقابلہ جم کر کرتے ہیں۔
5 فروری 1990 کو مالاکنڈ درگئی میں محمد سلیم خان کے گھر میں ایک ایسے بہادر بیٹے نے آنکھ کھلی جو پیدائشی طور پر معذور تھا۔ بیٹے کا نام محمد امر خان رکھا گیا جس نے ثابت کیا کہ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ واقعی امر ہوتا جا رہا ہے۔
وقت پر لگا کر اڑتا چلا گیا اور امر کے تعلیمی دور کی ابتدا ہوئی۔ اسکول سے زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے والے امر کا کہنا تھا کہ زمانہ طالب علمی میں مجھے میرے دوستوں کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ اچھے دوست یقیناً نعمت خداوندی ہوتے ہیں۔ میرے دوستوں نے مجھے ویسے رکھا جیسے پھولوں کو رکھا جاتا ہے لیکن پھولوں کے ساتھ کچھ کانٹے ضرور ہوتے ہیں جو انگلیوں میں چبھ کر زخم دے جاتے ہیں۔
امر نے باوجود حوصلہ شکنی کے اپنے ان دوستوں کے حسن سلوک کو سامنے رکھا جو ہمیشہ کسی مہربان فرشتے کی مانند اسکے ساتھ رہے۔
زندگی میں درپیش مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے محمد امر نے بتایا کہ انہیں اپنے تعلیمی کیرئیر میں جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا وہ نقل و حرکت کا تھا، کیونکہ تعلیمی اداروں وہیل چیئر پرسن ہونے کی وجہ سے قابل رسائی نہیں تھے۔
اسکے باوجود انہوں نے ہمت نہ ہاری اور تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا اور اپنی قابلیت اور محنت سے بائیو ٹیکنالوجی میں بی ایس اور پشاور یونیورسٹی سے ایم بی اے کی سند حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے انسانی وسائل کے انتظام کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کرنا شروع کیا جس میں پالیسی سازی، ملازمین کی ترقی اور تنظیمی اثرات پیدا کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔
محمد امر خان عوامی تقریر کا نا صرف شوق رکھتے ہیں بلکہ صوبہ بھر میں معذور افراد اور نوجوانوں کے مسائل پر آواز بلند کر چکے ہیں۔ محنت رائیگاں نہیں جاتی یہی وجہ ہے کہ محدود نقل و حرکت جیسے چیلنجز کے باوجود امر خان نے خود کو کئی سرگرمیوں میں مشغول رکھا اور بالآخر نیشنل یوتھ اسمبلی میں یوتھ گورنر کے طور پر اپنا نام درج کروایا۔ حال ہی میں محکمہ صحت خیبرپختونخوا نے محمد امر خان کو پاکستان کے سول ایوارڈ کیلئے نامزد کیا۔حکومت پاکستان کے تعاون سے محمد امر کا نام نیشنل بک فاؤنڈیشن میں یوتھ بک ایمبیسڈر کے طور پر بھی شامل ہے۔ حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے معذور افراد اور نوجوانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے محمد امر خان کو سونے کے تمغے (گولڈ میڈل) سے نوازا گیا جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انہیں “ہیروز آف پاکستان” ایوارڈ سے نوازا۔

دی فرنٹئیر وائس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے محمد امر خان کا کہنا تھا کہ اس وقت وہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ نوجوانوں بالخصوص معذور نوجوانوں کے حقوق کی وکالت کے عزم نے میرے پیشہ ورانہ سفر کو استقامت بخشی اور کامیاب بنایا۔
اپنی خصوصی گفتگو میں ایک سوال کے جواب میں محمد امر نے کہا کہ انہیں زندگی سے کوئی گلہ نہیں۔ اللہ کا کرم ہے جس نے مجھے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا اور اسی وجہ سے آج میں اس مقام پر ہو جہاں اپنے رب کا جتن اشکر ادا کیا جائے کم ہے۔
نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے محمد امر کا کہنا تھا خود کو بری صحبت (برے افراد) کے گرداب میں نہ پھنسنے دیں کیونکہ جب آپ غلط افراد میں گھر جاتے ہیں تو آپکو زندگی میں واپس نارمل انسان بننے کیلئے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ایک بات اور یاد رکھیں کہ جب آپ اپنی زندگی سے متعلق حیرت انگیز منصوبہ سازی کر رہے ہوتے ہیں تو تب خود کو بدتر کیلئے ذہنی طور پر تیار رکھیں”
خصوصی انٹرویو میں خصوصی افراد کو پیغام دیتے ہوئے محمد امر کا کہنا تھا کہ جسمانی معذوری کوئی معذوری نہیں ہوتی، انسان کی سوچ اسکو قابل یا معذور بناتی ہے۔
محمد امر خان نے تو ثابت کر دیا کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر عزم و استقامت کا پیکر بن کر کامیابیاں سمیٹی جا سکتی ہیں لیکن دوسری جانب کئی ایسے معذور افراد ہیں جو زمانے کے بے ثباتی کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان میں ہر مسجد، ہر بینک، ہر ریسٹورنٹ، ہر بس ایسی ہو جہاں خصوصی افراد کیلئے راستہ موجود ہو۔
محمد امر خان نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہیں جنکی زندگی اور کامیابیوں سے نا صرف خصوصی افراد بلکہ ایک نارمل انسان بھی بہت کچھ سیکھ کر زندگی میں آگے بڑھ سکتا ہے

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *