فن و ثقافت
کھوتا قبر۔۔۔ حقیقت یا افسانہ
ارم نیاز
گھوڑا اور کتا ہمیشہ سے انسان سے محبت اور اپنی وفادار طبیعت کیوجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ جانور انسانوں سے زیادہ مانوس ہو جاتے ہیں اور حقیقی معنوں میں وفادار ثابت ہوتے ہیں۔ گدھے کو عموماً ایسے جانوروں کی فہرست میں شمار نہیں کیا جاتا حالانکہ سخت محنتی یہ جانور بھی انسانوں سے ویسے ہی مانوس اور وفادار ہوتا ہے جیسے کہ مذکورہ دو جانور۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہو گا کہ یعفور نامی ایک ایسا خوش بخت گدھا بھی دنیا میں آیا تھا جس پر رسول اللہﷺ سواری فرماتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے خیبر کو فتح کیا تو آپ ﷺ نے مالِ غنیمت میں ایک سیاہ گدھا پایا جسکا نام آپ نے یعفور رکھا۔ جب آپ ﷺ کو کسی صحابی سے کوئی کام درپیش آتا تو یعفور کو اس شخص کی طرف بھیج دیتے۔ وہ دروازے پر آتا اسے اپنے سر سے کھٹکھٹاتا اور جب گھر والا باہر آتا تو وہ اسے اشارہ کرتا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بات سنے۔ نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد یعفور سے آپ کی جدائی برداشت نہ ہوئی اور اس نے ابو ہیشم بن تیہان کے کنویں میں کود کر جان دے دی۔ وہ کنواں اس کی قبر بن گیا۔ ‘‘
یعفور کی کہانی گدھے کی انسان سے بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اب دور حاضر میں آئیں تو ایسے ہی ایک وفادار گدھے کی کہانی ہری پور سے ایبٹ آباد جاتے ہوئے دریائے ہرو کے کنارے واقع کھوتا قبر نامی قصبے میں ملتی ہے۔
یہاں کے مقامی لوگ اس قبر سے متعلق مختلف کہانیاں سناتے ہیں۔ گدھے کی شہرت جب انگریز دور میں ہزارہ کے ڈپٹی کمشنر ڈی ایچ واٹسن تک پہنچی تو وہ بھی اس پر تبصرہ کئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے 1907ء میں اپنی تحریر کردہ کتاب ’’دی گزیٹیئر آف ہزارہ‘‘ میں اس گدھے اور مقام کا ذکر کیا۔
ایک کہانی کے مطابق مقامی پہاڑی پر فضل دین نامی ایک بااثر زمیندار رہتا تھا جس نے دیگر مال مویشیوں کے علاوہ ایک عدد گدھا بھی پال رکھا تھا جو نہایت ہی ہوشیار تھا۔ گاؤں کے اکثر لوگ اُس زمیندار کے کھیتوں میں کام کرتے۔ پورے علاقے میں چونکہ پانی کا ایک ہی کنواں تھا لہٰذا خواتین وہاں سے پانی نکال کر چمڑے کے مشکیزوں میں بھر کر گدھے کے اوپر رکھ کر اُسے کھیتوں کی طرف ہانک دیتیں اور وہ وہاں کام کرنے والے لوگوں تک بہ آسانی پانی پہنچا دیتا۔ پانی پہنچانے کے ساتھ ساتھ وہ کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں تک کھانا بھی پہنچاتا تھا۔ یہ گدھا شیر کے حملے کے نتیجے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دُنیا سے کوچ کر گیا۔ اُس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس جگہ کا نام ’’کھوتا قبر‘‘ رکھ دیا گیا اور باقاعدہ طور پر کھوتے کو دفن کر کے قبر بنائی گئی۔
اس کے متعلق دوسری مشہور کہانی یوں ہے کہ سکھ دور سے پہلے دہمتوڑ کے دیہاتیوں نے سلہڈ کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ فاصلہ اِتنا زیادہ تھا کہ دہمتوڑ کے کسانوں کو دوپہر کا کھانا گاؤں جا کر کھانا مشکل ہو گیا۔ اُن کی عورتیں کھانا ایک گدھے پر رکھ دیتیں۔ گدھا کھانا لے کر اپنے مالکوں کے پاس پہنچ جاتا۔ مقبوضہ زمینوں کے پْرانے مالکان نے آپس میں مشورہ کیا اور اِس نتیجے پر پہنچے کہ اگر اس گدھے کو مار دیا جائے تو اس کے مالکان کے لئے یہ بڑا مشکل ہو جائے گا کہ وہ روزانہ کھانا کھانے کے لئے اپنے گاؤں میں جائیں اور پھر واپس آ کر زمین پر کاشت کر سکیں۔ ایک دِن وہ گدھے کے راستے میں بیٹھ گئے۔ جونہی اُنہیں گدھا نظر آیا، اُس کو مار دیا۔ گاؤں کے لوگوں کو اس کی موت کا بڑا دُکھ ہوا۔ اُنہوں نے اس کے مردہ جسم کو دفن کر دیا اور اس کی قبر پر پتھروں کا ایک ڈھیر بنا دیا۔ یہ ڈھیر آج بھی موجود ہے۔
جبکہ تیسری کہانی جو زیادہ مشہور ہے وہ کچھ یوں ہے کہ انیسویں صدی میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے جہادی دستے نے سکھوں کے خلاف جہاد کے لئے بالا کوٹ جاتے ہوئے ایبٹ آباد کے قریب خیمے نصب کیے۔ آس پاس کی پہاڑیوں پر سکھوں کے قبضے کی وجہ سے مجاہدین کو مشکلات پیش آنے لگیں۔ ایسے میں انہوں نے ایک گدھے کو استعمال کیا۔
یہ گدھا رات کی تاریکی میں مجاہدین کا اہم ساز و سامان لے کر آتا جاتا رہتا تھا۔ گدھے کی راستہ نہ بھولنے کی خوبی نے اس مشکل وقت میں مجاہدین کا خوب ساتھ دیا۔۔ایک روز دشمن پر یہ راز کھل گیا تو اُنہوں نے گدھے کو مار ڈالا۔ مقامی روایات کے مطابق یہاں قبر میں وہی گدھا دفن ہے جسے جنگی ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔