فن و ثقافت
سرِ لامکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہیٰ وہ چلے نبیﷺ
تحریر : ارم نیاز
تخلیق کائنات معجزات سے بھرپور ہے۔ دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم کی تخلیق سے لیکر طوفان نوح تک، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لیکر حضرت یوسف تک، حضرت ابراہیم سے لیکر پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ تک ہر رسول ہر نبی ہر پیغمبر کی حیات معجزات سے بھرپور ہے۔ شق القمر ہو یا شَقِّ صَدْر ، میرے نبی پاک ﷺ کے معجزات کو دیکھ کر جوق در جوق لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
کلیم اللہ کوہ طور پر چڑھ کر رب کائنات سے کلام کرتے تھے لیکن نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا معاملہ برعکس تھا۔ یہاں رب نے خود اپنے محبوب کو ملاقات کیلئے آسمان پر طلب فرمایا۔
وہ رجب کی ستائیسویں شب تھی۔ یثرب و بلد الحرام کے باسی اپنے گھروں میں پرسکون نیند سو رہے تھے۔ دو جہانوں کے آقا نبی پاک ﷺ بھی اپنی چچا زاد بہن اُمِّ ہانی ؓکے گھر محو استراحت تھے۔
یکایک مکان کی چھت شق ہوتی ہے اور حضرت جبرائیلؑ تشریف لاتے ہیں۔ ان پر ایک اہم فریضہ اپنے رب کی جانب سے سونپا گیا ہے کہ انہوں نے پوری شان کے ساتھ آپ ﷺ کو رب العزت کے روبرو پیش کرنا ہے۔ جبرائیل علیہ السلام رب کے حکم بجا لاتے ہوئے نبی اقدس کو آرام سے اٹھاتے ہیں اور مسجد الحرام میں حطیم میں خانہ کعبہ سے بالکل متصل زمزم کے کنویں کے قریب لٹاتے ہیں۔ آپ کا سینہ مبارک کو حلق کے گڑھے سے لے کر ناف تک چاک کیا جاتا ہے اور آپ ﷺکا قلب مبارک نکال کر اسے زمزم کے پانی سے دھویا جاتا ہے اور پھر ایمان و حکمت اور نور نبوت سے بھر دیا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے کے اختتام پر قلب اطہر کو اس کے اصلی مقام پر رکھ کر آپ ﷺکا سینہ دُرست کردیا گیا۔
اپنے محبوب کے اس عظیم الشان سفر کیلئے رب کائنات براق کو منتخب فرماتے ہیں جس نے بجلی کی تیزی سے اس سفر کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔
شب معراج دو سفروں میں منقسم ہے، اسرا اور معراج۔ پہلا سفر اسرا کہلایا۔ اس شب میں بیت اللہ (مسجد الحرام) سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر تھا۔ براق نے آپکو بجلی کی سی تیزی سے پلک جھپکتے بیت المقدس پہنچایا جہاں استقبال کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام پیغمبر مدعو کیے گئے جنھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوتِ کبریٰ اور سیادت کے لیے دو رکعت نماز میں امامت فرمائی۔ یہ گویا اس بات پر مہر ثبت کرنا تھی کہ آپ ﷺ پر نبوت تمام کر دی گئی۔
یہاں سفر کا ایک حصہ اپنے اختتام پر پہنچا اور دوسرا شروع ہوا جو معراج کہلاتا ہے۔ پھر اس جگہ سے ’’عالمِ بالا‘‘ کی سیر وسیاحت شروع ہوتی ہے، اس واقعہ کو حدیث کی روشنی میں ’’معراج‘‘ کہتے ہیں۔ یہ عروج اور آسمانی طبقات کی ایسی سیاحت تھی جہاں ایک مقام ایسا بھی آیا کہ جبرئیل امین علیہ السلام کو بھی وہاں اجازت نہیں تھی، یہ مقام ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ تھا۔ آپؐ کو جنت و دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ اس عظیم سفر میں رب نے اپنے محبوب کو کئی تحائف سے نوازا جس میں سب سے قیمتی تحفہ نماز کی صورت میں امت محمدی کو عطا کیا گیا۔ ابتداء میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں اور پھر رسالت مآب ﷺ کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
” اے محبوب! ہم اپنی بات بدلتے نہیں، اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا۔ میں آپ کی امّت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا۔”
اسلامی عقائد، تکمیل ایمان اور مصائب و آلام و تکالیف کے ختم ہونے کی خوش خبری سنائی گئی۔ یہ بھی خوش خبری سنائی گئی کہ امت رسول کریم ﷺ میں جو شرک سے دُور رہے گا اس کی مغفرت فرمائی جائے گی۔
رات کے ایک مختصر حصے میں آسمان کی سیر کو جانا اور پھر واپس روئے زمین پر آنے والے واقعے پر وہ لوگ ایمان لائے اور لاتے رہیں گے جنکے دل نبی حضرت محمد ﷺ کے خاتم النبین ہونے کی گواہی دیتے ہیں، جنکے دل پرنور ہیں۔
مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد شب معراج کو نہایت جوش و خروش سے مناتی ہے۔ درود پاک کی محفلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور درود کے گلدستے نبی اقدس حضرت محمد ﷺ کو پیش کیے جاتے ہیں۔۔اللہ ہم سب کو اپنے نبی کریم ْﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمراہ زبانوں کو درود پاک سے تر رکھے آمین
