اہم خبریں
فوج میں موج کی کھوج

اسلام ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ دنیا میں ریاستوں کا تصور، ریاستوں کی حدود، بارڈرز کا قیام کسی بھی فوج کے بنا ناممکن ہے۔ فوج کا تصور پہلی یا دوسری جنگ عظیم سے نہیں بلکہ دور اسلام کے آغاز پر ابھرا تھا۔
پیارے نبی اکرم ﷺ کے عہد میں جب بھی مخالفین سے جنگ کا اعلان کیا جاتا تو مسلمان جذبہ شھادت سے سرشار ہو کر کفار کا مقابلہ کرتے تھے۔ جنگ بدر، جنگ احد سمیت کئی معرکے مسلمانوں نے سر کیے۔ اللہ کے سپاہیوں کا کام صرف میدان جنگ تک محدود نہ ہوتا تھا بلکہ اللہ کے رسول ﷺ مہمات کے لئے بطور خاص کسی صحابی کے ذمے کوئی کام فریضہ سونپتے تھے اور وہ جہاد پر روانہ ہوتے تھے۔ عہد صدیقیؓ میں بھی یہ سلسلہ برقرار رہا تاہم کوئی باقاعدہ فوج نہ تھی۔
یہ 15 ہجری کا زمانہ تھا جب خلیفہ المسلمین سیدنا عمرؓ نے فوج کاباقاعدہ شعبہ قائم کیا۔ فوج کا مکمل ریکارڈ ہوتا، افواج کو باقاعدہ تنخواہیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا، فوج کے اہل خانہ وظائف اور معاملات اسی محکمہ کے ذمہ ہوتے تھے۔ ابن سعد کے مطابق ہر سال 30 ہزار نئی فوج بھرتی کی جاتی تھی۔معرکوں مہمات، اللہ کے دشمنوں کی سرکوبی، سرحدوں کی حفاظت پر مجاہدین کو مامور کرنا اسی شعبہ کا کام تھا۔مزید برآں صیغہ فوج،رضاکار فوج ،نئی فوج ،چھاؤنی اور بارکیں، کاتب/پرچی نویس ،اصطبل خانے،فوج کو سہولتیں، جنگ میں لشکر کی ،عشاری نظام، تنخواہ، رسد،آلات حرب،رخصت،جاسوس و خبر رسائی کا نظام عہد عمرؓ فاروقی میں قائم اس شعبے کے ذمے تھے۔
سیدنافاروق اعظمؓ کے شاندار دور میں عظیم فتوحات کی بدولت اسلام 22 لاکھ مربع میل کی حدود تک پھیل گیا۔ مزید یہ کہ اس وقت کی دو سپر پاورز، روم اور فارس اسلامی فوج کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کھا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئیں۔ کیا یہ سب کسی فوج کے بغیر ممکن تھا؟
دور جدید میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا، سرحدی حدود کا دفاع کرنا اور ملکی سالمیت کا تحفظ افواج کی زمہ داری ہے۔ پاکستان کی سرحد ایک جانب بھارت جیسے ازلی دشمن کے ساتھ ملتی ہیں جو ہمہ وقت اس کوشش میں ہوتا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچایا جا سکے جبکہ دوسری جانب برادر اسلامی ملک افغانستان کی سرحد ہے جہاں سے مسلسل دراندازی، دہشتگردوں کے حملے جاری رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان حق رکھتا ہے کہ اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنائے۔
موجود دور میں جدید اسلحوں سے لیس فوج ہی طاقت کا منبع سمجھی جاتی ہے۔ ماڈرن لڑاکا طیارے، میزائل، ٹینک، آبدوزیں افواج کیلئے اتنی ہی اہم ہیں جیسے زندگی کیلئے آکسیجن۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا فوجی بجٹ تقریباً 75 بلین ڈالر سے زیادہ ہے، اسکے مقابلے میں پاکستان کے دفاعی بجٹ کی پوزیشن کا اگر پچھلے پانچ سال کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 5 سال میں اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ سن 2019 میں دفاعی بجٹ زیادہ کرنے کی بجائے اس میں 3 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی کمی کی گئی۔
مالی سال 22-23 میں دفاعی بجٹ 1.5 ٹریلین روپے (7.1بلین امریکی ڈالر) تھا جو بجٹ کا 15.7فیصد تھا۔مالی سال 23-24 میں، کل قومی بجٹ کی ترتیب 14.4ٹریلین روپے ہے جبکہ دفاعی بجٹ 1.8ٹریلین روپے (6.3بلین امریکی ڈالر) مقرر کیا گیا ہے جو بجٹ کا صرف 12.5 فیصد بنتا ہے۔ دفاعی بجٹ میں پچھلے سال کے مقابلے میں 3 فیصد سے زائد کمی آئی ہے۔ موازنہ کیجئے جو ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے اس کا دفاعی بجٹ تقریباً 75 بلین امریکی ڈالر ہے اور اسکے مقابلے میں ہمارا دفاعی بجٹ چھ سوا چھ بلین امریکی ڈالر بنتا ہے۔ کیا ایسی صورت میں ہم اپنا دفاع کر سکتے ہیں؟ آفرین ہے افواج پاکستان کو کہ ان مشکل حالات کے باجود انہوں نے جذبہ ایمانی، محدود وسائل اور بجٹ کے ساتھ اپنا شمار دنیا کی نویں شاندار فوج کے طور پر کر رکھا ہے۔ وہ فوج جو سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی دہشتگردوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ یہی فوج ہے جو سیلاب، زلزلے، کسی ناگہانی آفت کے وقوع پذیر ہونے پر صف اول میں مدد کرنے والوں میں شمار ہوتی ہے، یہی فوج ہے پوری دنیا میں امن کا جھنڈا بلند کیے ہوئے ہے اور اقوام متحدہ میں خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو پاک فوج پر ہر لمحہ یہ تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پاک فوج 80٪ بجٹ کھا جاتی ہے۔ اپنی زندگی پر نظر دوڑائیں کیا آپ سکون کی نیند نہیں سوتے؟ کیا آپکو یہ بے چینی تو نہیں رہتی کہ آپکی خواتین کی عزت محفوظ نہیں؟ کیا آپ اس فکر کا شکار ہیں کہ دشمن نے حملہ کیا تو اپکا، آپکے اہلخانہ کا، آپکے شہر، گاؤں ، دیہات اور ملک کا کیا بنے گا؟ آپ ہرگز ان افکار کا شکار نہیں ہیں کیونکہ دفاع کرنے والوں نے اپنا سکون ہماری خاطر قربان کر رکھا ہے۔
قرآن کریم کی سورہ نساء کی آیت نمبر 95 میں اللہ فرماتا ہے کہ
“جو مسلمان گھروں میں بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے والے، دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔”
ایک نوجوان جو صبح نو سے شام پانچ تک اپنی جاب کر کے بقیہ وقت اپنی فیملی کے ہمراہ گزارتا ہے کیا وہ اس نوجوان کے برابر ہو سکتا ہے جو کیپٹن یا میجر کا رینک سجا کر گھر والوں سے دور سرحدوں پر پہرا دیتا ہے؟
کیا سرد موسم میں گھروں میں نرم گرم بستروں میں بیٹھ کر چائے کی پیالی ہاتھوں میں تھامے پاک فوج پر تنقید کرنے والے اور بجٹ کھانے کا طعنہ دینے والے ان سپاہیوں / آفیسرز کے برابر ہو سکتے ہیں جو یخ بستہ ہواؤں کا مقابلہ کرنے سیاچن کی برفانی چوٹیوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ کیسی عیاشی ہے جو ان نوجوانوں کو عید جیسے تہوار پر بھی گھر سے دور رکھنے پر مجبور کرتی ہے؟ یہ عیاشی نہیں بلکہ وہ جذبہ ہے، وہ عیش والی زندگی کا تصور ہے جسکا وعدہ قرآن کرتا ہے۔
بجٹ کھانے کا طعنہ دینے والے اپنی اولاد کو فوج میں بھرتی کر کے یہ بجٹ شوق سے کھا سکتے ہیں لیکن اتنا ظرف انہی ماؤں کا ہے جو شیر دل جوانوں کو جنم دیتی ہیں اور ملک کا اور آنے والی نسلوں کا سوچ کر اپنے بچوں کو پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ صد آفریں ہے بارڈر پر کھڑے نوجوان کو جسکو نہیں معلوم ہوتا کہ کس سمت سے کوئی گولی آ کر اسکے سینے میں پیوست ہر جائے مگر اپنے ہم وطنوں کی خاطر وہ ہر قربانی دینے کو تیار اور چوکس کھڑا ہوتا ہے۔ تنقید سے پہلے یہ ایک بار ضرور صومالیہ، عراق، شام، مصر، فلسطین پر نظر دوڑائیں جہاں کے لوگ فوج کو ترستے ہیں۔
افواج پاکستان سرحدوں کا، سمندری حدود کا اور فضائی حدود کا دفاع کرنا جانتی ہے۔اندھی تقلید میں اپنے محافظوں پر وار نہ کریں یقیناً وہ اللہ کے پسندیدہ ہیں اور ہم انکے برابر ہرگز نہیں ہو سکتے۔