Connect with us

اہم خبریں

محبت کی گونجتی اذان مسجد مہابت خان سے

Published

on

اذان درحقیقت اپنے رب کی جانب سے بلاوا ہے اور جو مسلمان اس دعوت پر لبیک کہتا ہے یقیناً وہ دنیاوی و اخروی دونوں میں فلاح پا جاتا ہے۔
تاریخ اسلام کئی ایسی مساجد کا تذکرہ ملا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے ہمیشہ کیلئے امر ہو گئیں۔
مساجد کی فہرست میں شمار کئی قدیم مساجد پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا کی مسجد مہابت خان کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہاں تین صدیوں سے محبت کی اذان گونج رہی ہے جو بندے کو اپنے عشق حقیقی کی جانب بلاتی ہے۔ پشاور کی یہ مشہور و قدیم ترین مسجد 1670ء میں مغلیہ دور میں تعمیر کی گئی۔ مسجد کا نام مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں لاہور کے گورنر نواب دادن خان کے پوتے اور مغل گورنر پشاور نواب مہابت خان کے نام پر رکھا گیا ہے۔
پشاور کے مشہور قلعہ بالا حصار سے 50 فٹ کے فاصلے پر اندرون شہر میں واقع اس مسجد کا صحن 35 میٹر لمبا اور تقریباً 30 میٹر چوڑا ہے۔ صحن کے درمیان میں ایک بڑا نیلے رنگ کے ٹائلوں والا وضو کا تالاب موجود ہے جبکہ مسجد کی دیواروں اور گنبدوں کو نقش نگاری اور مرقع نگاری سے مزین کیا گیا ہے۔ گلکاری اور عربی خطاطی کی آرائش سے مزین یہ مسجد غیر ملکیوں کو بھی متوجہ کرتی ہے۔ مسجد کے 34 میٹر بلند و بالا میناروں کے درمیان 6 چھوٹے چھوٹے مینار بھی ہیں۔ اس کی چھت پر کل 7 گنبد تعمیر کیے گئے جن میں 3 گنبد کافی بڑے ہیں۔
مسجد کی تاریخ پر سیاہ بادل اس وقت چھائے جب 1834ء میں مسجد مہابت خان پر سکھ قابض ہو گئے اور انھوں نے مسجد کے میناروں کو پھانسی گھاٹ کے طور پر بھی استعمال کیا۔ برطانوی دور حکومت میں اس عظیم الشان عبادت گاہ کو دوبارہ مسلمانوں کی عبادت کے لیے بحال کیا گیا۔
تین صدیوں قبل تعمیر کی جانے والی مسجد مہابت خان کو حکومت نے سنہ 1982ء میں قومی ورثہ قرار دیا اور محکمہ اوقاف کے حوالے کیا، جس نے اس کی تزین و آرائش کے مشکل کام کا بیڑا اٹھایا۔
یوں تو مسجد مہابت خان عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہی نمازیوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے لیکن ماہ رمضان میں گویا اس مقام پر کشش ثقل زیادہ ہو جاتی ہے گویا ماہِ رمضان کے دوران روحانیت کا ایک پر رونق مرکز بن جاتی ہے اور نمازیوں کی معمول سے زیادہ بڑی تعداد اپنی نمازوں کو ادا کرنے اور تراویح کیلئے اس مسجد کا رخ کرتے ہیں۔
26 اکتوبر 2015 کو آنے والے 7.5 شدت کے زلزلے کے باعث مسجد مہابت خان کے ایک مینار کو شدید نقصان پہنچا۔ سنہ 2018 میں اس قومی ورثہ مسجد مہابت خان کو اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے تزئین و آرائش کے کام کا آغاز کیا گیا۔ منصوبے کیلئے 8 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے تاہم تین سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مسجد کے محض 5 مینار اور 2 گنبد ہی تیار ہو سکے۔ رواں سال وزیراعلی خیبرپختونخوا کے مشیر برائے سیاحت و ثقافت اور آثار قدیمہ زاہد چن زیب نے تاریخی مسجد مہابت خان کے دورہ کے دوران تزئین و آرائش کے منصوبہ کا معائنہ کیا جو 152 ملین روپے کی لاگت سے زیر تکمیل ہے۔

خیبر پختونخوا میں سیاحت پھل پھول رہی ہے۔ ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے سیاح پشاور آئیں اور مسجد مہابت خان کا دورہ نہ کریں یہ ناممکن ہے۔مسجد مہابت خان کا شمار خطے کے قدیم ترین مساجد میں ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی عمارت فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ بھی ہے۔ سن 2023 میں کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے زیر اہتمام پولینڈ سے پاکستان کے دورے پر آئے ٹوور آپریٹرز کیلئے دورہ پشاور شہر کا اہتمام کیا گیا تو سیاحوں کو تاریخی مسجد مہابت خان کا دورہ بھی کروایا گیا جبکہ رواں سال ملائیشیا کے خصوصی ٹوریسٹ وفد نے پشاور کی اس تاریخی مسجد کا دورہ کیا اور خصوصی دلچسپی ظاہر کی۔
مسجد مہابت خان کی عمارت کو دیکھ کر جہاں تعمیر کرنے والوں کی اسلام سے محبت اور مساجد سے عقیدت ظاہر ہوتی ہے وہیں یہ احساسِ زمہ داری بھی بیدار ہوتا ہے کہ اس قدیم ورثے اور عبادت گاہ کی حفاظت اور اسکو آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ رکھنا ہماری زمہ داری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قومی ورثہ کی تزین و آرائش پر خصوصی توجہ دی جائے اور سیاحوں کا مرکز نگاہ بنایا جائے، کوئی بعید نہیں کہ یہ مسجد اسلامی دنیا کی عظیم الشان مساجد کی فہرست میں اپنا منفرد مقام بنا لے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *