Connect with us

سیاست

قربانی، اتحاد اور عزم پاکستان کی کہانی

Published

on

تحریر : علی آفریدی

پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف بے مثال جنگ لڑ رہا ہے، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ہم عالمی دہشت گردی کے انڈیکس میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ ہماری مسلح افواج نے سرحدوں کی حفاظت، شہریوں اور غیر ملکیوں کے تحفظ کے لیے قابلِ ستائش اقدامات کیے ہیں، لیکن خطے میں دہائیوں سے جاری بے چینی کے اثرات ہمیں اب بھی جھیلنے پڑ رہے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی طالبان سے معاہدہ کرنے کے بعد افغانستان چھوڑ چکے ہیں، لیکن پاکستان کو اس تمام صورتحال کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پائیدار امن کا خواب ایک دھندلی حقیقت بن چکا ہے، جب کہ اندرونی اور بیرونی دشمن ہماری مشکلات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے آنے والی المناک کہانیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ مسئلہ صرف کسی ایک علاقے کا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے جو پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ لیکن ہمارا عزم پختہ ہے۔ آرمی چیف نے واضح کر دیا ہے کہ امن کو خراب کرنے والوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔ دہشت گرد خوف پھیلانے کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن ان کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ہم وہ امن حاصل نہ کر لیں جس کی ہمیں خواہش ہے۔

اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں۔ صرف 2024 میں 1,300 سے زیادہ شہری دہشت گردی کا شکار ہوئے، جب کہ 754 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ لیکن ان قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا گیا۔ ہماری فورسز نے دشمن کو جواب دیا اور 896 دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ 2025 کے آغاز کے ساتھ ہی یہ جنگ مزید تیز ہو گئی ہے۔ صرف دو ہفتوں میں 70 سے زیادہ دہشت گردوں کو کارروائیوں کے دوران ختم کیا گیا، اور روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 130 آپریشنز کیے جا رہے ہیں۔ ہماری فوج کی قربانیاں بے مثال ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اقتدار میں موجود لوگ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ مذمت اور تعزیت کے بیانات جاری کرنے کے علاوہ کچھ خاص نہیں کیا جا رہا۔ حکومتی نااہلی کے باعث فوج کو نہ صرف سرحدوں کی حفاظت بلکہ انتظامیہ کے خلا کو بھی پُر کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ناانصافی ہے اور طویل عرصے تک جاری نہیں رہ سکتی۔

نیشنل ایکشن پلان (NAP) اس مسئلے کے حل کے لیے ایک مربوط حکمت عملی فراہم کرتا ہے، جس میں حکومت، سیکیورٹی اداروں اور مقامی انتظامیہ کے کردار واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن اس پر مکمل عملدرآمد کے بجائے سیاسی رہنما ایک دوسرے سے حساب برابر کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ انتقامی سیاست صرف عدم استحکام کو بڑھا رہی ہے۔ اگر ہم واقعی ایک پرامن پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارے رہنماؤں کو ذاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر گورننس کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ آگے کا راستہ واضح ہے۔ قومی اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر نہ ہم امن قائم کر سکتے ہیں اور نہ ہی معاشی استحکام حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر سیاست دان آپس میں جھگڑتے رہیں اور ملک جلتا رہے تو ترقی کیسے ممکن ہوگی؟ ہر ایک کو، چاہے وہ سیاستدان ہو، شہری ہو یا ادارہ، اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ دفاعی ادارے اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں اور کئی بار بڑی قربانیاں دے چکے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اقتدار میں موجود لوگ بھی اپنی ذمہ داری سنبھالیں اور اس بوجھ کو بانٹیں۔

پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف دہشت گردوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے مستقبل کے تحفظ کی جنگ ہے۔ ہماری فوج کی قربانیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ دشمن کے عزائم ناکام بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ جنگ عوام کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ ہمیں نہ صرف دہشت گردوں بلکہ اُن عناصر کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنی ہوگی جو معاشرے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ یہ جنگ اتحاد کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ سیاستدانوں کو گورننس پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی، شہریوں کو تقسیم کو مسترد کرنا ہوگا، اور سب کو مل کر ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کرنی ہوگی جہاں دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ پاکستان پہلے بھی مشکلات سے نکل کر مضبوط ہوا ہے، اور اجتماعی عزم کے ساتھ ہم اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پرامن اور خوشحال مستقبل یقینی بنا سکتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *