Connect with us

کھیل

خیبرپختونخوا کی شان جان شیر خان

Published

on

خیبرپختونخوا کی زرخیز مٹی نے ایسے ایسے سپوتوں کو جنم دیا ہے جنھوں نے بین عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر کے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کیا۔ تعلیم کا میدان کو یا سیاست کا، کھیل کا میدان کو یا ادب کا، خیبرپختونخوا کے ستارے ہر افق پر جگمگاتے آئے ہیں۔

ایسے ہی ایک سپوت کی 15 جنوری 1969 کو پشاور کے بہادر خان کے گھر میں پیدائش ہوئی جسکا نام جان شیر رکھا گیا۔ کسی کو اس پل کیا معلوم تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر اسکواش کی دنیا پر راج کرے گا اور جسکے دم سے اسکواش کے کورٹس آباد ہونگے۔

سنہ 1986 میں اسکواش کی دنیا کے دو ستارے جہانگیر خان اور جان شیر خان پاکستان اوپن کے پہلے راؤنڈ میں پہلی بار مدمقابل آئے۔ جہانگیر خان نے اپنے سے چھ سال چھوٹے حریف کو چار گیمز میں قابو کر لیا لیکن وہ جان شیر کے ارادے نہ بھانپ سکے جو یہ سوچ کر میدان میں اترا تھا کہ فائنل کھیلنا اور جیتنا ہے۔

جان شیر خان کا یہ بیان کہ وہ چھ ماہ میں جہانگیر خان کو ہرا دیں گے کئی لوگوں کہ لیے مضحکہ خیز تھا، اس بیان کی سنجیدگی کا اگر کسی کو اندازہ تھا تو وہ خود جان شیر خان تھا۔ 1987 کی ہانگ کانگ اوپن کے سیمی فائنل میں جان شیر کے بیان کی حقیقت سب پر آشکار ہو گئی جب انھوں نے جہانگیر خان کو شکست دی۔ اس وقت دنیا کو معلوم ہوا کہ اب اسکواش کی حکمرانی ایک کی بجائے دو خانوں کے ہاتھ آ گئی ہے۔

سنہ1987 کے پاکستان اوپن ٹورنامنٹ کے فائنل میں اسکواش کے دونوں حکمران ایک بار پھر آمنے سامنے آئے اور جیت کا سہرا جان شیر خان کے سر سجا۔ اس پورے سال میں سال میں دونوں حریفوں کے مابین کھیلے گئے 11 میچوں میں سے سات میں جان شیر خان نے جہانگیر خان کو شکست سے دو چار کیا۔

 سنہ1981 سے 1986 تک ناقابل شکست رہنے والے جہانگیر خان کے لیے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا۔ اس دوران کئی بڑے کھلاڑیوں کا کیرئیر اسکواش کے بادشاہ جہانگیر خان کو ہرانے کی خواہش دل میں ہی لیے ختم ہو گیا تھا لیکن جہانگیر خان کی بادشاہت میں شرکت دار بن گیا اپنا ہی ہم وطن جان شیر خان۔

خود جہانگیر خان کا کہنا ہے کہ “جان شیر خان نئی امنگ سے کورٹ میں آنے والا نوجوان کھلاڑی تھا اس کے اپنے خواب تھے جنہیں وہ پورا کرنا چاہتا تھا”

جہانگیر خان جان شیر خان کی محنت، اور ایمانداری کے بھی متعرف ہیں انکا کہنا ہے کہ

“جان شیر ایک صاف ایماندار کھلاڑی کے طور پر کھیلا۔ اس نے کبھی بھی پوائنٹ لینے کے لیے منفی طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اس میں سپورٹس مین اسپرٹ تھی۔ وہ بہت محنتی تھا۔ اسے اپنے کھیل پر بھروسہ تھا وہ سخت ٹریننگ کرتا تھا”

بقول جہانگیر خان شائقین کو انکے میچز کا انتظار رہتا تھا کیونکہ ان میچوں میں اعلی معیار کا کھیل دیکھنے کو ملتا تھا۔ اس دور میں صرف دو بار ورلڈ اوپن راس نارمن اور راڈنی مارٹن نے جیتا بقیہ تمام عرصہ ٹائٹل پاکستان کے پاس رہا۔

ان دونوں کا ٹاپ پر رہنا پاکستان کے لیے اچھا تھا۔ 1986ء میں جان شیر خان نے پہلی مرتبہ ورلڈ جونیئر اسکواش چیمپئن شپ، 1987ء میں پہلی مرتبہ ورلڈ اوپن اسکواش ٹورنامنٹ اور 1992ء میں پہلی مرتبہ برٹش اوپن اسکواش ٹورنامنٹ اپنے نام کیا۔ انہوں نے مجموعی طور پر آٹھ مرتبہ ورلڈ اوپن اسکواش ٹورنامنٹ اور چھ مرتبہ برٹش اوپن اسکواش ٹورنامنٹ جیتا۔ وہ 99 پروفیشنل ٹائٹلز جیتنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ and

پاکستان کا یہ جگمگاتا قومی ہیرو جان شیر خان پُراسرار بیماری پارکنسن کا شکار ہیں۔ حکومت اپنے اس قومی ہیرو کے علاج معالجے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑ رکھے جس نے ایک طویل عرصے تک پاکستان کے نام کو اسکواش کے میدانوں میں بلند اور روشن رکھا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *