سیاست
امریکی حملوں کے بعد ایران وزیر خارجہ کو ماسکو بھیجنے کا فیصلہ، مضبوط روسی حمایت کی تلاش

رائٹرز کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے وزیر خارجہ عباس عراقچی کو ماسکو بھیجا ہے تاکہ انہوں نے صدر ولادیمیر پوٹن کو ایک خط پیش کیا، جس میں تہران نے روس سے زیادہ فعال اور مؤثر حمایت کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ اقدام امریکہ کے خلاف حالیہ فوجی کارروائیوں کے بعد اٹھایا گیا ہے، جو 1979 کے انقلاب کے بعد اب تک سب سے بڑے حملے قرار پائے ہیں۔
اگرچہ پوٹن نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی، وہ امریکی کارروائیوں پر بالواسطہ اور سنجیدہ ردعمل کی بجائے کشیدگی میں کمی اور ثالثی پر زور دیتے رہے ہیں۔ ایرانی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ روسی موقف ابھی تک انہیں قناعت بخش نہیں لگا اور تہران چاہتا ہے کہ ماسکو اسرائیل اور امریکہ کی پیشانی پر واضح کارروائی کرے۔
عراقچی نے روسی خبر رساں ادارے TASS کو بتایا کہ اس دورے کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں موجود کشیدگی کے دوران دونوں ممالک کے موقف کو ہم آہنگ کرنا ہے۔ کریملن نے عراقچی کے دورے کی تصدیق کی، مگر چپ رہ کر راز ہی راز بنائے رکھے۔
پوٹن نے بارہا تجویز دی ہے کہ روس واشنگٹن اور تہران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے اور ایران کو پر امن جوہری توانائی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ اسی تناظر میں روسی حکام نے بھی اعلان کیا کہ ایرانی جوہری پلانٹ بوشہر میں روسی تکنیکی ماہرین مکمل طور پر محفوظ ہیں۔
روس پہلے ہی یوکرین جنگ میں مصروف ہے، اس لیے سڑک سیدھا ظاہر کرنے والے پوٹن کے لئے ایران-یو ایس تنازع میں ایندھن ڈالنا آسان نہیں۔ ابھی کے لیے یہ سنجیدہ مذاکرات اور سفارتی پیش کش ہے—جو تہران کی بڑھتی توقعات کے پیش نظر کی گئی ہے۔