سیاست
سیاسی عدم استحکام کا حل
تحریر: شمس مومند
جدید دور میں ریاستوں کی بقاٗ معیشت کیساتھ جڑی ہوتی ہے۔اور معاشی استحکام سیاسی استحکام کیساتھ منسلک ہوتا ہے۔ جبکہ حکومتوں کو درپیش چیلینجز میں سیاسی عدم استحکام کیساتھ ساتھ جھوٹا پروپیگنڈا، فیک نیوز اور امن و امان سر فہرست ہوتے ہیں۔ پاکستان گزشتہ دو سال سے سیاسی عدم استحکام کے باوجود معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے۔ جو بلا مبالغہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی و پالیسی ہم آہنگی اور سخت محنت کی بدولت ممکن ہورہا ہے۔ مگر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اگر ایک طرف معاشی استحکام اور ترقی کی رفتار کافی سست ہے تو دوسری جانب عالمی اور مقامی سرمایہ کار اب بھی حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں حکومت اور فوج کے درمیان ممکنہ اختلاف یا احتجاجی عوام کی ممکنہ کامیابی سے ان کا سرمایہ ڈوب نہ جائے۔
ملک کی موجودہ سیاسی افراتفری اور کمزور معیشت کو مد نظر رکھ کر اس خاکسار کی نظر میں اس کے دو ممکنہ حل ہیں۔ پہلا حل نسبتا مشکل اور طویل مدتی ہے۔ اور اس حل کیلئے سیاسی قیادت کو اپنی اپنی کمفرٹ زون سے نکل کر عوام میں جانا ہوگا۔ اور عسکری قیادت کو مزید سیاسی اینجینرنگ میں حصہ لینے کی بجائے ایک آئینی ریاستی ادارے کی طرح صرف اندرونی و بیرونی حقیقی خطرات سے نمٹنے تک خود کو محدود کرنا ہوگا۔گزشتہ دس سال سے پی ٹی آئی قیادت نے عوام کو صرف سبز باغ دکھائے ہیں۔ان کو حقیقی جدوجہد اور ترقی سے نابلد بنا دیا ہے۔چور چور کے نعروں گالیوں، بے سروپا دلائل اور سیاسی مباحثے نے پاکستان کو نفرت کی آماجگاہ بنادیا ہے۔ نوجوانوں کو جھوٹ اور فریب کے اس ماحول سے حقیقی دنیا اور اس میں درپیش زمینی حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے فوجی یا حکومتی ترجمانوں کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو خود آگے آنا ہوگا۔میاں نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، ایمل ولی خان، محمود خان اچکزئی، آفتاب احمد خان شیر پاو، سراج الحق،اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، فرحت اللہ بابر اور سینیٹر رضا ربانی جیسے حقیقی قیادت کو اپنی آرام دہ خواب گاہوں اور ڈرائنگ رومز سے نکل کر عوام کے درمیان جانا ہوگا۔ میری نظر میں یہ سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ جس ملک اور عوام نے انہیں سالہا سال حکمرانی کرنے اور عزت و آرام کی زندگی گزارنے کے مواقع دئے۔ اب انہی عوام اور ملک پر مشکل وقت ہے اور انہیں اس مشکل گرداب سے نکالنا انہی سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے۔ سیاسی قیادت کو صرف دو باتوں کا خیال رکھنا ہے ایک یہ کہ وہ بڑے بڑے اجتماعات اور صرف تقریریں کرنے کی بجائے عوامی نمائندوں، نوجوانوں، مختلف میدانوں کے یونینز لیڈران سمیت میڈیا نمائندگان کو وقت دیں ان سے بار بار گفتگو کریں۔اور اپنی سنانے کی بجائے انکو سننے کی کوشش کیجئے۔ دوم یہ کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سرکاری اور غیر سرکاری ہر دو سطح پر روزگار کے مواقع بڑھانے پر فوکس کیجئے۔اگر عوام کو یہ احساس ہوجائے کہ کوئی انکے مسائل سننے اور اسکو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اور انکو کسی نہ کسی حد تک روزگار ملنے کے امکانات ہیں یقین جانئے کوئی نہ اس ملک کو چھوڑے گا نہ اس ملک کے خلاف کسی کے ورغلانے میں آئے گا۔نوجوانوں کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور دوم یہ کہ نوجوان سیاسی افراتفری احتجاجی دھرنوں ، مارچوں اور جلسے جلوسوں کی بجائے اپنی اور ملکی ترقی کیلئے اپنے اپنے میدان میں جدوجہد کیجئے۔انہیں یقین دلائیں کہ روزگار کے مواقع صرف سیاستدانوں اور افسران کے چہیتوں کیلئے نہیں بلکہ عام عوام کیلئے ہیں۔ پھر دیکھئے کہ پاکستانی نو جوان ملک و قوم کی ترقی میں کیا کرشمے دکھاتے ہیں۔
دوسرا حل انا ضد اور ہٹ دھرمیوں کے خول سے نکل کر ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔عمران خان اچھا ہے یا برا، انھوں نے اس ملک کو نقصان پہنچا یا یا عوام کو شعور دیا۔ ان باتوں سے آگے بڑھکر یہ دیکھا جائے کہ وہ پاکستان کی ایک ٹھوس سیاسی حقیقت ہے۔ار عدم اعتماد سے لیکر آج تک ان کا کوئی متبادل لیڈر شپ سامنے نہیں آسکا۔ ان کیساتھ سرکاری افسران کی بجائے صاحب حیثیت ثالثوں کے ذریعے ڈائیلاگ کا آغاز کیجئے۔ انہیں ملکی مسائل کے حل میں کردار ادا کرنے کی شرط پر جیل سے نکال کر جمہوری اور سیاسی دھارے میں شمولیت کا موقع دیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی طریقہ اپنایا گیا تو بہت جلد نوجوان اس ملک کی ترقی میں کردار ادا کرتے نظر آینگے۔