فن و ثقافت

کوئٹہ کا پیر غائب

Published

on

تحریر : ارم نیاز

پاکستان کو اللہ رب العزت نے ایسے ایسے خوبصورت مقامات سے نوازا ہے کہ دیکھنے والے انگشت بدندان ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے شہر کوئٹہ میں کئی تاریخی و تفریحی مقامات موجود ہیں۔ انہی میں ایک نام پیر غائب کا بھی ہے۔
نام سنتے ہی انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ شاید کوئی ایسا ولی اللہ کوئٹہ میں موجود ہے جو نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے لیکن ان سے متلعق کچھ روایات موجود ہیں۔
روایات، قصے، کہانیاں ہر دور ہر مذہب کا خاصہ رہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی ایسے کئی قصے و روایات سننے کو ملتی ہیں جنکو سن کر انسان ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ انہی روایات میں پیر غائب سے متعلق بھی مختلف روایات موجود ہیں۔ پیر غائب کوئٹہ سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی سلسلے میں واقع وادئ بولان میں ایک پُرفضا سیّاحتی مقام ہے۔
نبی کریم ْﷺ نے تبلیغ اسلام کے سلسلے میں جن بادشاہوں کو خط لکھے اِن میں ایران بھی شامل تھا۔ ایران کے بادشاہ نے نہایت تکبر سے نبیﷺ کے خط کو پھاڑ دیا تھا۔
تقریباً اسی دور سے متعلق بلوچستان میں مسلمان بزرگوں کے چند مزارات ملتے ہیں اور روایت کے مطابق اُن بزرگوں نے یہاں غالباً اُسی وقت اسلام کی تبلیغ اسلام شروع کردی تھی جب نبی کریم نے ایران کے بادشاہ کو خط لکھا تھا اِن مزارات میں سب سے اہم بولان میں واقع مقامات اور مزارات ہیں۔ روایات ان میں دو بہن بھائیوں کا ذکر آتا ہے جو بی بی نانی اور پیر غائب کے نام سے مشہور ہیں۔ روایت کے مطابق جب آتش پرستوں کی فوج نے ان دونوں بہن بھائیوں کا تعاقب کیا تو دونوں بہن بھائی اس فوج سے جان بچانے کے لیے بھاگے کیونکہ آتش پرستوں سے مقابلہ کرنے کیلئے کوئی مقامی فوج موجود نہ تھی۔ دونوں بہن بھائی المعروف بی بی نانی اور بھائی پیر غائب چند میل کے بعد ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔
پیر غائب اس وادی میں پہنچے جہاں بالکل سامنے بلند پہاڑی چٹان بالکل سیدھی کھڑی تھی اور آگے جانے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ روایت کے مطابق اُس وقت پیر غائب نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ “اے اللہ مجھے اِن آتش پرستوں کی فوج سے بچا”۔ دعا کرنے کی دیر تھی، اللہ نے اپنے سچے عاشق کی دعا پر کن فرمایا تو سامنے کی چٹان شق ہو گئی اور پیر غائب اُس میں داخل ہو گئے تو چٹان واپس اپنی پہلے والی حالت میں آ گئی۔

اس خوبصورت مقام سے متعلق دوسری روایت یہ ہے کہ کسی زمانے میں پانی کی قلّت کے باعث یہاں کے باشندے ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے، اسی دوران ایک نیک بزرگ تشریف لائے تو مقامی باشندوں نے اُن سے پانی کی قلّت کا ذکر کیا۔ بزرگ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی جو پہاڑ سے پانی کا چشمہ پُھوٹ پڑنے کی صورت میں قبول ہوئی۔ یہ چشمہ آج تک رواں دواں ہے۔ بزرگ کا مزار بھی اس چشمے کے قریب ہی موجود ہے۔
پیر غائب کی زمین کھجور کے درختوں سمیت مختلف اشجار اور جڑی بوٹیوں سے آباد ہے۔ یہاں پہاڑوں سے گرتی چھوٹی بڑی آبشاروں سے مزیّن چشمے ہیں، جن کا پانی گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رہتا ہے۔
ماضی میں 20 لاکھ کے لگ بھگ سیاح پیر غائب ریسورٹ کا رخ کرتے تھے لیکن بدترین نظراندازی نے سیاحوں کو مایوس کیا اور انہوں نے اس علاقے کی جانب سفر کرنا چھوڑ دیا۔ اس صورتحال نے نہ صرف علاقے کے لوگوں میں احساس محرومی بڑھایا بلکہ سیاحت کے شعبے کو بھی شدید متاثر کیا۔ سن 2020 میں بلوچستان کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام کمال الیانی نے سیاحوں کو متوجہ کرنے والے اس مقام پر “پیر غائب ریسورٹ” کا افتتاح کیا۔
اس دیدہ زیب سیاحتی مقام کی تزئین و آرائش و بحالی کا کام حکومت بلوچستان اور فرنٹیئر کور کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا۔ زائرین اور سیّاحوں کے ہجوم کے پیشِ نظر پیر غائب کے مقام پرفرنٹئیر کور (ایف سی) نے حکومت ِبلوچستان اور سدرن کمانڈ کے تعاون سے پختہ سڑکیں، مسجد، پارک اور ایک فُوڈ پوائنٹ بھی قائم کیا ہے۔
پیر غائب کی خوبصورتی لوگوں کو جس طرح اپنی جانب راغب کر رہی تھی، بلوچستان حکومت نے اس مقام کی تزئین و آرائش کے بعد اسے سیاحت کے لیے مزید بہتر بنا دیا ہے۔
پاکستان سیاحوں کی جنت بن سکتا ہے، اگر سیاحتی مقامات کی تزئین و آرائش پر خصوصی توجہ دی جائے تو پیر غائب جیسے کئی مقامات سیاحوں کو خوش آمدید کہنے اور انکی میزبانی کرنے کو بیتاب ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Exit mobile version