فن و ثقافت
مہاجر پرندوں کی ٹریش بک میں شمار پاکستان
ہجرت یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ایک دشوار گزار کام ہے لیکن ہجرت صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ پرندوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہر سال نقل مکانی کرتی ہے۔ کئی صدیاں پہلے لوگ تصور کرتے تھے کہ پرندے سرد موسم کے آتے ہی تالابوں اور جھیلوں کی تہہ میں یا چاند پر جا کر بسیرا کر لیتی ہیں اور وہیں سارا موسم سرما سو کر گزارتی ہیں لیکن یہ ایک فرسودہ تصور تھا۔
پرندے اپنی بقا اور افزائش نسل کیلئے ہجرت کرتے ہیں۔ پرندوں کی دنیا میں مرغ باراں نامی پرندہ بنا رکے سب سے لمبے سفر کا ریکارڈ کا حامل ہے جبکہ لمبی اڑان کا چیمپیئن آرکٹک ٹرن ہے، جو ہر سال قطبِ شمالی سے قطب جنوبی تک 35 ہزار کلومیٹر کا دو طرفہ سفر کرتا ہے۔
موسم سرما میں ہجرت کرنے والے پرندے روٹ نمبر چار سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ جی ہاں روٹ نمبر چار یا انڈس ہائی وے عالمی طور پر استعمال ہونے والے سات راستوں میں سے ایک ہے۔ ان مہمان پرندوں میں مختلف انواع کی مگھ، مرغابی،کونج، لم ڈھینگ،قاز، بگلے، باز اور تلوار شامل ہیں۔
قدرت نے پرندوں کو کیسے سکھلایا ہے کہ طویل مسافت کے دوران اپنے راستے کیسے تلاش کرنے ہیں؟ آیا کوئی جی پی ایس نظام پرندوں میں قدرتی طور پر نصب کر رکھا ہے یا پھر پرندوں کی دنیا میں بھی گوگل میپ کا استعمال کیا جاتا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس نے انسان کو سوچنے پر مجبور کیا کہ ننھے پرندے طویل مسافت طے کرنے کیلئے کیسے راستوں کا تعین کر پاتے ہیں؟ کچھ ماہرین کے نزدیک یہ پرندے دورانِ پرواز دن کو سورج کی مدد سے اور رات کو چاند ستاروں کی مدد سے راستے پر نگاہ رکھتے ہیں اور رستوں کا تعین کرتے ہیں ۔کچھ ماہرین کے خیال میں پرندے راستے میں آنے والے زمینی نشانات کو اپنی یادداشتوں میں محفوظ رکھتے ہیں جبکہ کچھ کے مطابق نوجوان پرندے اپنے بزرگ اور زیرک پرندوں سے سیکھ کر راستوں کا تعین کر تے ہیں۔
ہجرت کر کے آنے والے مہمان پرندے پاکستان میں اپنا پڑاو واٹر بیسن نوشہرہ، ٹانڈہ ڈیم کوہاٹ ، سوات ، چترال، صوبہ پنجاب کے مختلف مقامات، چھوٹی بڑی جھیلوں جب کہ سندھ میں ہالیجی ، کینجھر اور لنگسی جھیل کے علاوہ دریائے سندھ کا طاس کا علاقہ، آبی گزر گاہیں اور فلک بوس پہاڑ ان مہمان پرندوں کے لیے بے حد کشش رکھتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان آنے والے مہمان پرندوے خصوصاً کونج کی آمد شکاریوں کیلئے گویا عید کا سماں باندھ دیتی ہے۔ ہر سال کونجوں کی ایک بڑی تعداد جب موسمِ سرما میں ہزاروں میل مسافت طے کر کے پاکستان کی آب گاہوں پر اترتی ہیں تو وہ اس تلخ حقیقت سے بے خبر ہوتی ہیں کہ طویل سفر کے بعد بھی انکے لیے کوئی راحت نہیں بلکہ وہ بے رحم شکاریوں کے شکنجے میں آ گئی ہیں، یوں واپسی پر آدھا قبیلہ یا تو قفس میں پڑا ہوتا ہے یا پھر شکاری حضرات کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکا ہوتا ہے۔
کونجوں کی بڑی تعداد بلوچستان کامے ساحل میانی ہور جو رامسر سائٹ (رامسر معاہدے کے تحت بین الاقوامی اہمیت کی آب گاہ) پر قیام کیلئے آتی ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان معصوم پرندوں کو چوری چھپے راتوں رات شکار کر لیا جاتا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ ان شکاری حضرات میں زیادہ تر کا تعلق وزیرستان سے ہوتا ہے جہاں کونج کو پالنا بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں کی عوام کے اصرار پر خیبر پختونخواہ کی حکومت نے کونجوں کے شکار کا لائسنس بھی جاری کر رکھا ہے۔
پاکستان میں شکار کے ایسے طریقے متعارف ہو رہے ہیں جن کو استعمال کر کے پورے جھنڈ کو کسی جال میں پکڑ لیا جاتا ہے۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ ایک معصوم مہمان پرندے کو بیدردی سے پکڑنا اور پھر اسکو اسکی برادری سے الگ کر کے پالنا کوئی بہادری نہیں بلکہ مہمان پرندوں کی ناراضگی کا سبب بن رہی ہے۔
دور دراز سے آئے مہمانوں کی آو بھگت کرنا میزبان ممالک پر فرض ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 7 سے 8 برس سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ پرندوں کی دیکھ بھال اور حفاظت جہاں محکمہ تحفظ جنگلی حیات و پارکس پر عائد ہوتی ہے وہیں عوام کا بھی فرض ہے کہ محکمہ سے بھرپور تعاون کریں اور پرندوں کے ناجائز اور غیر قانونی شکار، پرندوں کے مساکن کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف محکمہ کو آگاہ کریں تاکہ ان کے خلاف بروقت اقدامات کیے جا سکیں۔
یاد رکھیں جو پرندے ہزاروں میل کے راستوں کو اپنی یادداشتوں میں محفوظ رکھ سکتے ہیں وہ کسی ایسے ملک کا راستہ کیسے بھول سکتے ہیں جہاں انکی جان و نسل محفوظ نہ ہو۔ غیر قانونی شکار کا یہ سلسلہ اگر نہ تھما تو یقیناً پرندوں کا عالمی روٹ نمبر چار ویران ہو جائے گا اور کوئی پرندہ پاکستان مہمان بن کر نہ آئے گا۔