سیاست

اسلام اور پاکستان حقیقی انقلاب کا راستہ

Published

on

ایک وقت ایسا تھا جب لوگ سچ بولنے یا غلط کو غلط کہنے سے ڈرتے تھے۔ آزادیِ اظہار محدود تھی، اور یہ حق صرف انہی لوگوں کو حاصل تھا جن کا سماجی مرتبہ اونچا تھا۔ عام لوگ خوف اور دباؤ کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ایسے ماحول میں اسلام کا ظہور ہوا، جو صرف ایک مذہب نہیں بلکہ زندگی کا مکمل نظام ہے۔ اس کا مقصد انسانوں کو ان کے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرنا تھا۔قرآن، جو نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوا، پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسلام نے اس وقت انسانوں کو بدلنے کی بنیاد ڈالی جب وہ غلامی اور پستی میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس نے انسانوں کو ان کی حقیقی قدر و منزلت سے آشنا کیا اور انہیں عزت اور تہذیب کا راستہ دکھایا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اختلافِ رائے ہمیشہ موجود رہا ہے، اور اسلام کو بھی اپنی تعلیمات کے حوالے سے مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر اسلام کا پیغام ہمیشہ محبت، رحمت، اور مساوات پر مبنی رہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی اس کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے ہر اختلاف کو حکمت اور صبر سے حل کیا اور ہمیں اختلافات کو شائستگی سے سلجھانے کے اصول سکھائے۔احتجاج کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مگر یہ حق اخلاقیات اور قانون کے دائرے میں رہ کر استعمال ہونا چاہیے۔ اسلام انسانی جذبات جیسے غصے اور انتقام کو فطری مانتا ہے، لیکن ان کے اظہار کے لیے اصول وضع کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے انتقام کے جاہلانہ نظام کو ختم کرکے انصاف پر مبنی نظام قائم کیا۔اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ قرآن اور نبی ﷺ کی سیرت میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ ایک مثالی اسلامی معاشرہ وہی ہے جہاں برداشت، رواداری، اور اعلیٰ اخلاقیات کو فروغ دیا جائے۔ اختلاف یا احتجاج کرتے وقت یہ ضروری ہے کہ کسی کی عزت، جان، یا مال کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر احتجاج میں شدت یا انتقام شامل ہو جائے تو یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہوگا۔

پاکستان ایک آزاد ریاست ہے جو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ یہاں ہر شہری کو قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کا حق حاصل ہے۔ مگر احتجاج ایسا نہ ہو کہ ریاستی املاک یا کسی فرد کو نقصان پہنچے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ مسلمان کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔اسلام صبر، معافی، اور اخلاقی برتری کا سبق دیتا ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں جذباتی ہونے کے بجائے حکمت سے کام لینا چاہیے اور اپنے عمل سے اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔یہ وقت ہے کہ ہم صرف کہنے کے مسلمان نہ بنیں بلکہ اپنے کردار سے اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں۔ ہمیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم صرف باتوں کے نہیں بلکہ عمل کے غازی ہیں۔ آج وقت ہے کہ ہم نبی ﷺ کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور دنیا کو دکھائیں کہ ہم قرآن کے پیروکار ہیں، جو اپنے عمل سے دوسروں کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Exit mobile version