فن و ثقافت
پاکستان کا جزیرہ استولا
دنیا بھر کے سیاحوں نے خوبصورت جزیروں کی لسٹ میں سے سب سے خوبصورت جزیرے کو منتخب کرنے کے لئے ووٹ ڈالے تو اکثریت کا فیصلہ فلپائن کے ”پالاوان“ نامی جزیرے کے حق میں گیا اور یوں پالاوان دنیا کا خوبصورت ترین جزیرہ قرار پایا۔ اس جزیرے کی پسندیدگی کے حق میں 76000 ووٹ آئے۔ پالاوان کو عالمی ورثہ نے اپنا اثاثہ قرار دیا ہے۔
لیکن کیا آپکو معلوم ہے کہ ایسا ہی ایک خوبصورت مقام پاکستان میں بھی موجود ہے۔ جی ہاں، لق و دق صحرا کا تصور لیے بلوچستان میں خشکی کا ایک ایسا ٹکڑا بھی موجود ہے جو چاروں جانب سے پانی سے گھرا ہوا ہے۔ اس جزیرے کا نام جزیرہ استولا جسے جزیرہ ہفت تلار یا ’سات پہاڑوں کا جزیرہ‘ بھی کہا جاتا ہے، صوبہ بلوچستان میں پسنی کے ساحل سے قریب تقریباً 40 کلو میٹر بحیرہ عرب کے اندر واقع پاکستان کا سب سے بڑا سمندری جزیرہ ہے۔ سات پہاڑوں کے اس جزیرے کے پہاڑ منفرد مگر عجیب ہیبت کے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جس جزیرے سے عام پاکستانی لاعلم یا بہت محدود معلومات رکھتا ہے، تاریخ میں اس جزیرہ کا ذکر ایڈمرل نیرکوس کے حوالے سے ملتا ہے جسے 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے بحیرہ عرب اور خلیج فارس کے ساحلی علاقوں کی کھوج میں روانہ کیا تھا۔
دور حاضر کی مقبول برطانوی سیاح ٹریسی کرٹن ٹیلر کا اس جزیرے سے متعلق کہنا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے اس قدر خوبصورت ساحلی پٹی نہیں دیکھی تھی۔
اس جزیرے پر ایک چھوٹی سی مسجد، جسے حضرت خضر سے منسوب کیا جاتا ہے، کے علاؤہ ہندوؤں کے ایک پرانے مندر کے کھنڈرات کے آثار بھی ملتے ہیں۔ کھنڈرات کے علاؤہ جس لائٹ ہاؤس کا تذکرہ آجکل زبان زد خاص و عام ہے، سنہ 1982 میں حکومت پاکستان نے یہاں گیس سے چلنے والا ایک روشنی کا مینار (لائٹ ہاؤس) بحری جہازوں کی رہنمائی کے لیے تعمیر کیا تھا۔ بعد ازاں سنہ 1987 میں روایتی انداز سے چلنے والے لائٹ ہاؤس کو شمسی توانائی کے نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔
اس جزیرے پر میٹھے پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ بارش ہے۔ بارش کے بعد اگنے والا سبزہ بھی کچھ عرصے بعد ختم ہو جاتا ہے۔
یہاں کے حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت صرف کیکر کا پودا کر سکتا ہے جو سارا سال یہاں دکھائی دیتا ہے اسلیے آپ اس کو استولا کا میزبان بھی کہہ سکتے ہیں۔
فیروزہ رنگ کے صاف و شفاف پانی کا حامل جزیرہ استولا پاکستان کا پہلا ایسا علاقہ ہے جسے سمندری حیات کیلئے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ یہ درجہ دیے جانے کا مقصد جزیرے اور اس کے اردگرد پائی جانے والی سمندری حیات، پرندوں اور ان کے مسکن کو انسانوں کی مداخلت اور سرگرمیوں سے پہنچنے والے نقصان سے بچانا ہے۔ جزیرے کے حیاتیاتی ماحول کے تحفظ کو یقینی بنانے کی غرض سے جزیرے کی زمین یا اس کے گرد سمندر کا استعمال ممنوع ہے ۔
انٹرنینشل یونین فار کنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این) کے مطابق استولا کے جزیرے پر ملنے والی کئی آبی حیات اور نباتات پاکستان کے دیگر علاقہ جات تو کیا کسی دوسرے ملک میں بھی نہیں ملتی ہیں جیسے کہ وائپر نامی زہریلا سانپ۔ اس کے علاوہ یہاں گریٹر کرسٹیڈ نامی پرندہ جو کہ نایاب ہے، ہزاروں کی تعداد میں اس جزیرے پر موجود ہے۔ دنیا کے دیگر علاقوں میں اس پرندے کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔
بلاشبہ پاکستان کو اللہ نے بے پناہ خوبصورتی سے نوازا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت سیاحت کو فروغ دے اور بہترین سفری سہولیات میسر کرے کیونکہ سیاحوں کی نظروں سے اوجھل اس جزیرے تک پہنچنے کیلئے سات سے آٹھ گھنٹے کا طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مزید برآں جزیرے کی خوبصورتی میں اضافے کیلئے ایسے اقدامات کرے کہ اگلی بار خوبصورت جزیروں کی لسٹ میں پاکستان کا جزیرہ استولا بھی شامل ہو۔