فن و ثقافت
پشتو سُروں کی ملکہ زلوبے
تحریر: ارم ناز
سن 2022 میں خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں سڑک کنارے رہنے والی زلوبے کو جب بتایا گیا کہ انھیں آغا خان میوزک ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کے
منتخب گلوکاروں کی فہرست میں انکا نام بھی شامل ہے تو انھوں نے بڑی سادگی سے کہا کہ ’نہیں مجھے تو کچھ معلوم نہیں ہے۔‘
یہ الفاظ تھے زلوبےخاتون کے جن کو دنیا زرسانگہ کے نام سے جانتی ہے۔ زلوبے کا معنی جلیبی ہے۔ اپنے نام کی طرح میٹھی زبان میں سر بکھیرنے والی زرسانگہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے جیرمی مونٹاگو کہتے ہیں، ”موسیقی وہ آواز ہے، جو جذبات سے بھری ہو۔‘‘ اس تعریف پر لکی مروت میں آنکھ کھولنے والی پشتو گلوکارہ زرسانگہ پوری اترتی ہیں۔ زرسانگہ کو پشتو موسیقی کی ریشماں اور پشتو گلوکاری کی ملکہ ترنم کہا جاتا ہے۔ زرسانگہ کو بطور گلوکارہ ” پشتون لوک داستان کی ملکہ” کا خطاب ملا۔
موسیقی اور لوک گائیکی میں زرسانگہ کی خدمات کے لیے، ان کو 14 اگست 1990ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ زر سانگہ اپنے فنِ گلوکاری کا مظاہرہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں بھی کر چکی ہیں۔
اپنی جادوئی آواز سے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے عوام کے دلوں پر راج کرنے والی بلبل خیبر پختونخوا اور صدارتی ایوارڈ یافتہ پشتو فوک گلوکارہ زرسانگہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور پشتو کا نام بلند کیا لیکن آج بھی وہ ایک خیمے میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بقول زرسانگہ کے ’اگر میں خیمے میں مر گئی تو دنیا کیا کہے گی۔‘
یہ گلوکار ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں جنھوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کا حقیقی اور مثبت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ افق پر ایسے ستارے بار بار نہیں جگمگاتے لہٰذا پیشتر اس کے کہ یہ ستارے ڈوب جائیں صوبائی حکومت کو چاہیے کہ ماضی کے گلوکار و فنکاروں کی فنی خدمات کے اعتراف میں ان کی دلجوئی کرے اور انکی رہائش کے ساتھ ساتھ انکا ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کرے۔