کھیل

“صدیوں پرانے کھیل کی یاد دلاتا “مخہ

Published

on

تحریر : ارم نیاز

 

اسلام ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے زندگی کے ہر پہلو کو روشن اور واضح طور پر بیان کر رکھا ہے۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں ایک طرف عقائد، عبادات، معاشرت و معاملات اور اخلاقیات و آداب پر توجہ مرکوز رکھی گئی وہیں اخلاقی حدود میں رہ کر کھیل کود، خوش مزاجی اور تفریح کے پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ اس خوبصورت دین میں مفید کھیلوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔

روایات سے ثابت ہے کہ گھڑ سواری، تیراکی، دوڑنا، نیزہ بازی جیسے کھیل پسندیدہ قرار دیے گئے ہیں۔

دور حاضر میں جدید ٹیکنالوجی نے حضرت انسان کو بےشمار سہولیات میسر کر رکھی ہیں۔ جدید آلات نے جہاں ان روایتی کھیلوں کی جگہ گھر کی دہلیز پر ویڈیو گیمز لا رکھے ہیں جو نا صرف بچوں کی جسمانی صلاحیت بلکہ ذہنی صلاحیتوں کو بھی متاثر کر رہے ہیں وہیں خیبرپختونخوا کے چند اضلاع کسی حد تک قدیم کھیلوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ تیر اندازی سے ملتا جُلتا ایک کھیل مخہ آج بھی خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں کھیلا جاتا ہے۔
تیر اندازی ایک کمان کے استعمال کے ساتھ تیر پھینکنے کا فن، مشق یا مہارت ہے۔ تاریخی طور پر اس کا استعمال جنگوں میں ہوتا تھا، جبکہ جدید دور میں اس کا بنیادی استعمال مقابلے، کھیل اور تفریحی سرگرمیاں ہیں۔

رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے چار دیہاتوں میں رات کو روایتی کھیل ’مخہ‘ (تیراندازی) کا میدان سج جاتا ہے اور مقابلے کیلئے ہر گاوں اپنے بہترین کھلاڑیوں کو میدان میں اتارتے ہیں۔ اس کھیل میں جیت یا ہار پورے گاؤں کے لیے عزت یا شرمندگی کا باعث سمجھی جاتی ہے۔ ایک غلط نشانہ پورے گاؤں کو شرمندہ کروا سکتا ہے۔ سات یا نو دن یعنی طاق دنوں پر مشتمل اس کھیل کے فاتح کا فیصلہ گاؤں کے مشیران کرتے ہیں۔ جیت کا سہرا جس گاؤں کے سر سجتا ہے وہ پورے سال کا فاتح قرار دیا جاتا ہے۔

ایک ماہر تیر انداز کے مطابق عرب ممالک کا یہ کھیل مخہ 1870 سے اس علاقے میں منتقل ہوا اور تب سے کھیلا جا رہا ہے۔ مخہ کا پہلا نمائشی میچ 1870 میں مردان اور صوابی کے درمیان کلپانی (مردان) کے مقام پر کھیلا گیا۔

عمر کی قید سے آزاد اس کھیل مخہ کے کھلاڑیوں کی تربیت / کوچنگ ماہر عمر رسیدہ کھلاڑی کرتے ہیں۔ بزرگ کھلاڑی چونکہ کمان ’لیندہ‘ سے نشانہ لگانے کے لیے زور نہیں لگا سکتے لہٰذا وہ نوجوانوں کی کوچنگ کرتے ہیں۔
مخہ میں استعمال ہونے والے تیر پہلے بنگلہ دیش سے آتے تھے اور اب بھارت سے۔ باجوڑ، صوابی اور شموزئی میں تیار ہونے والی کمان ’لیندہ‘ مارخور کے سینگ سے بنتی ہے اور اس میں توت اور بیری کے درخت کی لکڑی استعمال ہوتی ہے۔
بڑھتی مہنگائی نے روزمرہ استعمال کی اشیاء کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے ساز و سامان کی قیمتیں بھی بڑھا دی ہیں۔ مخہ میں استعمال ہونے والے تیر کمان اب اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ یہ کھیل غریبوں کا نہیں رہا۔ ایک عام کمان کی قیمت 25 سے 30 ہزار روپے تک ہے جو کہ غریب کی دسترس سے باہر ہے۔

مخہ جیسے قدیم کھیل کو زندگی دوام بخشنا ہے تو ایسے اقدامات کیے جائیں کہ یہ کھیل ہر شخص کھیل سکے۔ بیرون ملک سے خریدنے کی بجائے مقامی طور پر اس کھیل کا سامان تیار کیا جائے اور تیر کمان کی قیمت کو کم سے کم رکھا جائے تاکہ تیر اندازہ کا ہر شوقین اپنے ایک شوق پورا کر سکے۔ نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کیلئے اکیڈمی قائم کی جائے۔
چونکہ یہ کھیل اب خیبرپختونخوا کی حدود سے نکل کر پنجاب تک پہنچ گیا ہے اسلیے حکومت کو موثر اقدامات کرنے چاہیے تاکہ روایتی کھیل کو جدید دور میں بھی زندہ رکھا جا سکے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Copyright © 2024 The Frontier Voice. Powered and Designed by Tansal Technologies.