سیاست
یونیورسٹیوں کے مسائل ۔ ایک جائزہ
تحریر : شمس مومند
کسی تمہید اور لگی لپٹی کے بغیر میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک کسی بھی جمہوری یا غیر جمہوری دور میں تعلیم ہماری ترجیح نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم پر کلرک اور نوکر بنانے کا الزام تھا اب ڈاکٹر عطاٗ الرحمن کا قائم کردہ اعلی تعلیم ٹک ٹاکرز ڈگری ہولڈرز پیدا کرنے میں بے مثال سمجھا جاتا ہے۔ اس طویل تباہی کی وجوہات جاننے کیلئے پہلے ذرا اپنی حکومت کی ترجیحات ملاحظہ کیجئے۔
2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد باقی درجنوں محکموں کی طرح تعلیم اور اعلی تعلیم کا محکمہ بھی صوبوں کو دے دیا گیا۔ اس سے پہلے ڈاکٹر عطا ٗ الرحمن نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم اور چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام رائج کرکے عالمی معیار کے مطابق یکساں نظام شروع کرنے کی داغ بیل ڈال دی تھی۔
چھوٹی منہ بڑی بات مگر بدقستی یہ ہوئی کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو جو اختیارات دئے گئے وہ اس کو استعمال کرنے اور وہ ذمہ داریاں اٹھانے کی صلاحیت سے محروم تھیں۔ اسکی مثال ایسی تھی جیسے ہمارے قبائلی نظام میں والدین اپنے 15 سالہ نوجوان اولاد نرینہ کی شادی کرادیتے ہیں۔ اسکے بعد اگر بیٹا فرمانبردار اور سمجھدار ہے تو وہ والدین کا دامن نہیں چھوڑتا ہے اور والدین اس نوجوان بیٹے کے ساتھ ساتھ اسکے بیوی بچوں کی سر پرستی اور مدد بھی جاری رکھتے ہیں۔ اگر بچہ ہمارے پختونخوا حکومت کی طرح خودسر اور نافرمان ہو تو پھر انہیں فوری طور پر الگ کیا جاتا ہے اور وہ کئی سال تک ہاتھ پاوں مار کر زمانے کی سختیاں جھیلتے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کھبی کامیاب مگر اکثر ناکام۔۔۔کیونکہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا ہے۔
اعلی تعلیم کا محکمہ صوبے کو ملنے کے فورا بعد صوبائی حکومت نے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بنا ڈالی اور وہاں ایک گریڈ 19 کے ڈپٹی سیکرٹری کو 30 یونیورسٹیوں کے سینکڑوں گریڈ 21 اور 22 کے وائس چانسلرز اور پروفیسرز صاحبان کا انچارج بنادیا۔ اسکے نتائج جو نکلنا تھے وہ آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔
گزشتہ دس سال تو وفاق کے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبے کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے درمیان یہ تنازع رہا کہ ان یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کس کا اختیار ہے اور ان کو فنڈز کون مہیاں کرے گا۔ابھی تک اس تنازع کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا نہیں ہے۔
صوبائی حکومت ایک طرف یونیورسٹیوں کو خود مختار ادارے کے طور پر ٹریٹ کرتی ہے انہیں اپنے وسائل خود پورا کرنے کی تلقین کرتی ہے دوسری جانب صوبائی حکومتوں نے ان یونیورسٹیوں کو ملازمتیں دلوانے کے مراکز یعنی ( جاب کرییشن سنٹرز) بنا دئے ہیں۔ہر حکومت نے ہر یونیورسٹی میں سینکڑوں ملازمین بھرتی کردئے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
خیبر پختونخوا کے 50 یونیورسٹیوں میں 32 یونیورسٹیاں سرکاری ہے۔ ان 32 میں سے 24 یونیورسٹیاں گزشتہ سوا سال سے مستقل وائس چانسلرز کے بغیر چل رہی ہے۔یعنی اٹھارویں ترمیم کو 14 سال گزرنے کے باوجود وائس چانسلرز کی ریٹائرمنٹ سے پہلے دوسرے کی تعیناتی کا کوئی مستقل حل نہیں لاگو نہیں کیا جاسکا ہے۔24 یونیورسٹیز میں مستقل وائس چانسلرز کی عدم موجودگی سے اعلی تعلیمی نظام جامد ہوگیا ہے۔ ہر یونیوسٹی میں پرو وائس چانسلرز ، وائس چانسلرز کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ وہ اپنے ساتھ فیکلٹی ڈین اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کا عہدہ بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پروفیسرز صاحبان کا دل ٹیچنگ سے اچاٹ ہوگیا ان میں سے زیادہ تر انتظامی عہدوں کیلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں۔ نئے پراجیکٹس اور فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے اعلی تعلیمی اداروں کا اصل کام یعنی تحقیق ٹپ ہوکر رہ گیا۔ حتی کہ بیرونی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز صاحبان ہمارے تعلیمی اداروں کے پی ایچ ڈی ایوا لوایشن سے انکاری ہو رہے ہیں کیونکہ ہماری یونیورسٹیاں پیسے دینے سے قاصر ہیں۔
یونیورسٹیوں پر اپنے اخراجات خود پورے کرنے کیلئے حکومتی دباو کا سارا ملبہ طلباٗ و طالبات پر گرتا ہے۔اور آج کل ان سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسیں پرائیوٹ یونیورسٹیوں سے زیادہ ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب لوگ گھروں میں بیٹھ کر تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہیں جبکہ صاحب ثروت لوگ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کو ترجیح دے رہے ہیں۔
باز پرس اور نظم ونسق کی صورتحال یہ ہے کہ ہر سرکاری یونیورسٹی میں ہر دوسرا پروفیسر اور انتظامی افسر اپنی جگہ پر ایک چھوٹا سا فرعون بنا بیٹھا ہے۔وہ اپنی مرضی پر دن کو رات اور رات کو دن میں تبدیل کر سکتا ہے۔مگر اس پر کوئی مائی کا لعل دباو نہیں ڈال سکتا ہے۔ انٹرنل مارکس نے انہیں طلباٗ و طالبات کیلئے گارڈ فادر بنادیا ہے۔ جسکی وجہ سے آئے روز ایسے واقعات اور قصے کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں جنہیں بیان کرنے سے میرا قلم قاصر ہے۔
صوبائی حکومت کی ترجیحات دیکھئے کہ تعلیمی نظام کو درست کرنے اور معیار کو بہتر بنانے کی بجائے ان کا سارا زور ارتکاز اختیارات پر مرکوز ہے۔گزشتہ روز صوبائی کابینہ نے گورنر کی چانسلر کی حیثیت وزیر اعلی کو دلوانے کا قانون منظور کرلیا۔اسمبلی سے منظوری کے بعد اب وائس چانسلرز کی تقرری نوٹیفیکیشن پر دستخط بھی گورنر کی بجائے وزیر اعلی صاحب ہی کرینگے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ یعنی لگتا ہے اس سے راتوں رات تمام مسائل حل ہوجاینگے۔اگر چہ قانونی ماہرین اس قانون سازی کو اختیارات سے تجاوز اور آئین سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ اگر صوبائی اسمبلی کو ایسی قانون سازی کا اختیار دیاجائے تو وہ کل ججز کی تقرری اور پرسوں وزراٗ کی تقرری اور حلف برداری کا اختیار بھی گورنر سے واپس لینے میں دیر نہیں کرینگے۔ کیا انہیں گورنر کا عہدہ ختم کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے؟