سیاست
مولانا فضل الرحمان کا 27ویں ترمیم کو متنازع قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر زور دیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں کی گئی ’’غلطیوں‘‘ کو واپس لے کر آئین کو اس کی اصل حالت میں درست کیا جائے، کیونکہ یہ ترمیم متنازع ہے اور جمہوری تقاضوں کے منافی ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ وہ فورم ہے جہاں مشاورت اور اتفاق رائے سے فیصلے کیے جاتے ہیں، لیکن 27ویں ترمیم کے معاملے میں ایسا نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ترمیم آئین کے ٹائٹل پر زخم سمجھی جائے گی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس دو تہائی اکثریت تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے آئین سازی کے وقت وسیع مشاورت کی۔
مولانا فضل الرحمان نے 26ویں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سود سے متعلق ہماری تجاویز شامل تھیں اور اس وقت پی ٹی آئی ارکان بھی رابطے میں رہے، جس کے نتیجے میں ایک ماہ میں اتفاق رائے پیدا ہو گیا۔ لیکن، ان کے مطابق، 27ویں ترمیم میں جمہوری اصولوں کو نظر انداز کیا گیا اور ’’سیاسی لحاظ سے بونے پن کا مظاہرہ کیا گیا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ کچھ شخصیات کو دی گئی مراعات نے طبقاتی فرق کو بڑھایا ہے۔ ’’ہمیں کسی شخصیت یا اس کے منصب سے مسئلہ نہیں، مسئلہ اصولوں کا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔
مولانا فضل الرحمان نے پنجاب میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے علماء کو محکمہ تعلیم کے ساتھ رجسٹر کرنے کے معاملے پر بھی سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ 18 سال سے کم عمر کے شرعی نکاح کو جنسی زیادتی قرار دے دیا گیا ہے، مگر اس کے باوجود بچوں کو جائز کہا جا رہا ہے۔ ’’آپ کہتے ہیں کہ اللہ کو جواب دینا ہے، لیکن جو غلطیاں آپ کر چکے ہیں انہیں واپس کرنا بھی ضروری ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت آج ’’مغربی ایجنڈے‘‘ کی پیروی کر رہی ہے۔ ’’آج آپ یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں،‘‘ انہوں نے الزام لگایا۔
