صحت
صحت کا خزانہ”گڑ”
تحریر : ارم نیاز
اللہ کی تخلیق کردہ اس کائنات کے بیشمار بھید ہیں جن سے پردہ اب تک نہیں اٹھایا جا سکا۔ رب کائنات نے اس دنیا کو ایک خاص مقصد کیلئے تخلیق کیا یے۔ انسان کو بطور نائب منتخب کیا اور اشرف المخلوقات کے منصب پر بٹھایا اور پھر اسی نائب کو مشکلات میں بھی مبتلا کیا جن میں سے ایک مشکل بیماری کی صورت ہے۔ وائرس اور بیکٹیریا سے پھیلنے والے کئی امراض ہیں جو حضرت انسان کو لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ انہیں بیماریوں میں ایک ذیابیطس بھی ہے۔ سائنس دان یہ کھوج نہیں لگا سکے کہ ذیابطیس کیسے ہوتی ہے لیکن اسے موروثی اور وائرل انفیکشن سے جوڑا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد 80 کروڑ جبکہ پاکستان میں 3 کروڑ 60 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔
انسانی جسم خون میں موجود شوگر کی مقدار کو جذب کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت ذیابیطس کو جنم دیتی ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر ذیابطیس سے بچنے کیلئے میٹھا کھانے سے پرہیز بتایا جاتا ہے۔ میٹھی خوراک میں چینی سر فہرست ہے۔
چینی کا زیادہ استعمال کئی قسم کے امراض کو جنم دینے موجب بن سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ چینی کو سفید یا خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن میٹھا کھانے کے شوقین حضرات اس صورت میں کیا کریں؟
طبی ماہرین نے میٹھا کھانے کے شوقین افراد کو گڑ استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ’گڑ‘ نہ صرف مٹھاس میں لذیذ ہے بلکہ انسانی صحت کیلئے بھی بہت مفید ہے اسلیے اسے سپر فوڈ مٹھاس بھی کہتے ہیں۔ آئرن، میگنیشیم اور پوٹاشیم سے بھرپور گڑ ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کی خاصیت رکھتا ہے اسلیے ذیابطیس یا شوگر کے مریض بھی اپنے معالج کے مشورے سے گڑ کی ایک مخصوص مقدار استعمال کر سکتے ہیں۔
گڑ کہنے میں جتنا آسان اور چکھنے میں جتنا میٹھا اور لذیذ ہوتا ہے اسکی تیاری کا عمل اسکے برعکس ہوتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں برسوں کی مہارت و تجربہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی جدید آلات کی بجائے روایتی طریقوں سے گڑ تیار کرنا ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے جسکی ابتدا کھیتوں سے گنا چن کر لانا اور پھر انکا رس نکالنے سے شروع ہوتی ہے۔ مٹی سے بنائی گئی بھٹی پر رکھی ایک بڑی لوہے کے کڑاہی میں گنے کا رس ڈال کر گڑ بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے اور گنے کے چھلکے ہی بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔
کئی گھنٹوں تک گنے کا رس کڑاہی میں کڑکڑاتا رہتا ہے، اس کو اتنی دیر پکانے کی وجہ رس کو گاڑھا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران ابلتے رس میں رنگ کاٹ اور سوڈا بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ تیار ہونے والے گڑ کا رنگ صاف ہو اور میل بھی ختم ہو۔ بالآخر گھنٹوں بعد رس گاڑھا ہو جاتا ہے تو پھر اسکو ٹھنڈا کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ اگر گڑ کی بجائے شکر بنانا مقصود ہو تو ٹھنڈے کرنے والے عمل کے دوران لکڑی کی مدد سے اسکو مکس کیا جاتا ہے اور اگر گڑ بنانا ہو تو اسکی پنیاں بنائی جاتی ہیں۔ سادہ گڑ کے علاؤہ گر مصالحے والا گڑ بنانا ہو تو رس ٹھنڈا کرتے وقت اس میں مونگ پھلی، کٹا ناریل، بادام اور میوہ شامل کیا جاتا ہے۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد گڑ کو فروخت کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔ ان گنت گھنٹوں اور انتھک محنت کے بعد لذیذ گڑ ہمارے دسترخوانوں کی زینت بنتا ہے۔
2004 کے ایک مطالعے کے مطابق، گڑ میں موجود اینٹی آکسیڈینٹس اور معدنیات پھیپھڑوں کی صفائی کرتا بلکہ سانس اور نظام انہظام کو اندر سے صاف کرتا ہے۔ روزانہ کم از کم ایک بار گڑ کھانے سے آپ کے پورے جسم سے زہریلا مواد خارج کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
گڑ آنتوں کو ایکٹو کرتا ہے اور ہاضمے کے انظائمز کو بہتر کام کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ مٹھاس کا یہ خزانہ آئرن اور فاسفورس جیسے معدنیات سے بھرپور ہوتا ہے ، جو جسم میں ہیموگلوبن کی پیداوار میں مدد کرتا ہے یعنی گڑ خون کی کمی کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
گڑ سفید شوگر کا ایک بہترین متبادل ہے۔ میٹھے کے طور پر گڑ کا انتخاب نہ صرف آپ کی شوگر کی سطح کو کنٹرول میں رکھ سکتا ہے بلکہ اپنے وزن کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ بھورے سنہری رنگ کا میٹھا معدے کی جلن اور تیزابیت کو دور بھگاتا ہے اور ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے۔
پرہیز علاج سے بہتر ہے لہٰذا اپنے پیسے کا صحیح مصرف کریں اور اپنی خوراک پر لگائیں۔ اس سردی میں اپنے دستر خوان کی رونق بڑھائیں، گڑ کھائیں اور صحت پائیں۔
