سیاست
لمبی ہے غم کی شام، مگر
شمس مومند
اس کے باوجود کہ ملک کا ہر دوسرا شہری حالات و واقعات کا رونا روتا ہے۔ مہنگائی بے روزگاری اور بد امنی نے شکوہ کناں ہے۔سوشل میڈیا نے ہر خاص و عام کو اظہار خیال بلکہ دل کا بھڑاس نکالنے کا موقع کیا دیا ہے کہ ہر شخص افلاطون بن گیا ہے۔بد قسمتی سے ہم میں سے زیادہ تر لوگ صرف آزاد نہیں بلکہ مادر پدر آزاد ہوگئے ہیں۔جھوٹی خبریں، ایجنڈے کے مطابق پھیلائی گئی افواہیں، سازشوں کے بیانئے اور بہت کچھ۔منٹوں میں ہر ایک پھیلاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ہم ہر کام کے ذمہ دار حکومت کو سمجھتے ہیں اور ہر کام میں کیڑے نکالنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔شاید ہم کچھ زیادہ ہی تنقید کے عادی بلکہ شوقین ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے مثبت پہلوو ہماری نظروں سے یا تو پوشیدہ ہے یا ہم اسے درخور اعتنا نہیں سمجھتے ہیں، آئیے آج ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں۔تاکہ بلاوجہ تنقید کرنے والوں کی بھی تھوڑی سی تسلی ہوجائے۔
نوجوانوں کی زبان پر یہ شکوہ زبان زدعام ہے کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے؟
پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں میں ترقی کا پیمانہ تعلیم صحت اور ذرائع آمد و رفت کو سمجھا جاتا ہے۔معیار اور مقدار کے حوالے سے تمام تر شکایات کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔2023-24 میں شہری علاقوں میں شرح خواندگی 76 فیصد سے بڑھکر 77.3 فیصد ہوگئی جبکہ دیہی علاقوں میں 53.7 فیصد سے بڑھکر 54 فیصد ہوگئی۔ملک کے زیادہ تر حصوں میں صحت کارڈ پروگرام نے عوام کو بیماریوں اور ہسپتال کے خرچوں سے بے نیاز کردیا ہے۔ یقین جانئے کہ 100 فیصد مفت علاج کی سہولت امریکہ و برطانیہ جیسے فلاحی ممالک میں بھی دستیاب نہیں۔ جی ڈی پی کی شرح گزشتہ سال 0.3 کی بجائے 2.4 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔افراط زر 29 فیصد سے 24 فیصد پر آگئی جبکہ مہنگائی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ قابو کرلیا گیا ہے۔گزشتہ چھ مہینے میں شرح سود 22 سے فیصد سے کم ہوکر 15 فیصد پر آگئی جبکہ سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین 90 ہزار پوائنٹ سے تجاوز کر گئی۔آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں پر نظر ثانی جاری ہے پانچ خودمختار پاور پروڈیوسرز کیساتھ نئے معاہدے ہوچکے ہیں جبکہ بہت جلد مزید خوش خبریاں بھی ملنے والی ہے۔ملک درآمد شدہ کوئلے اور تیل کی بجائے شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا ہونے والی تونائی پر منتقل ہورہا ہے جو ارزاں اور ماحول دوست بھی ہے۔ زراعت میں کافی حد تک جدت آرہی ہے اور نئی ٹیکنالجیز کا استعمال اور خصوصا سٹارٹ اپ کلچر فروغ پارہا ہے۔ آن لائن کاروبار اور جابز تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لوکل ٹورازم میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔سعودی عرب قطر اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں اربوں ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کرنے آرہے ہیں۔ملک کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں ٹریفک جام کے مسائل کیوں ہے؟ کیونکہ جس تیزی کے ساتھ عوام کا قوت خرید بڑھ رہا ہے گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اس تیزی اور منصوبہ بندی کے ساتھ حکومت سڑکوں کی فراخی اور تعمیر سے قاصر ہے۔
آپ اس بات پر بھی غور کر کے حیران ہونگے کہ ہر شہر میں سبزی کی دکانیں کم اور فروٹ کی دکانیں بڑھ رہی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ لوگوں کی فروٹ خریدنے کی قوت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور صرف مقامی پھل نہیں بلکہ افغانستان اور چائنا سے درآمدشدہ قیمتی پھل دکانوں کی زینت بن رہی ہے۔
اگر آپ نے گزشتہ پانچ سال میں گھر کی تعمیر و مرمت کا کو ئی کام کیا ہے تو آپ کو یہ بھی تجربہ ہوا ہوگا، کہ ہنر مند مزدور یعنی ترکھان، معمار، الیکٹریشن وغیرہ کے ناز نخرے تو درکنار غیر ہنر مند مزدور بھی روزمرہ کی بنیاد پر دیہاڑی نہیں کرتا ہے۔ اور اگر ان میں سے کوئی بھی ایسا کرتا ہے تو ان کا آنا جانا اور کام کرنا اپنی مرضی سے ہوگا۔ مالک نے اواز دی اور مزدور صاحب نے چادر جھاڑتے ہوئے اپنی راہ لے لی۔ کیا جس کے گھر میں فاقے کا خدشہ ہو وہ ایسا کرنے کا متحمل ہوسکتاہے یقینا نہیں۔
مہنگائی کا رونا رونے کے باوجود ملک کے ہر شہر میں بڑے بڑے پلازے اور پرتعیش مکانات اس تیزی سے بڑھ رہی ہے گویا قدرتی طور پر اگ رہی ہو۔ بازاروں میں ضروریات زندگی کی بجائے تعیشات زندگی کی دکانیں بڑھ رہی ہے۔ اگر میں چاہوں تو اس طرح درجنوں مثالیں اور بھی دے سکتا ہوں لیکن مختصر اور مدلل بات یہ ہے کہ لوگوں کا معیار زندگی بہت تیزی کے ساتھ بلند ہورہا ہے۔ لوگ محنت مزدوری کی بجائے وائٹ کالر جابز کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اور غریب سے غریب بندہ بھی دو وقت کے کھانے کے لئے فکر مند نہیں اگر انہیں فکر ہے، تو موبائل میں بیلنس ڈالنے کی، بچوں کے لئے فروٹ خریدنے کی یا شاید پھر کسی غمی خوشی کی۔۔میرے کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہے انصاف کا بول بالا ہے اور سب کچھ ٹھیک ہے مگر ایسا برا بھی نہیں کہ نوجوان سوال اٹھائے کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے۔؟ اس سوال کی بجائے ہمیں اپنی گریباں میں جھانک کر سوچنا چاہیئے کہ میں نے اس ملک کو کیا دیا ہے؟اور کیا میری زندگی میرے والدین کی زندگی سے زیادہ بہتر اور باسہولت نہیں۔صرف سوچ کا زاویہ بدل کر بھی ہم پچاس فیصد مطمئن زندگی گزارسکتے ہیں۔کیونکہ بقول فیض۔
دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے۔