سیاست
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا اعلان: افغان اب مہمان نہیں رہے
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے پیر کے روز ایک سخت بیان دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے آئے ہوئے غیر قانونی افراد “اب پاکستان کے مہمان نہیں رہے” اور انہیں واپس اپنے ملک جانا ہوگا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ غیر قانونی افغان شہریوں کو ہر صورت ملک بدر کیا جائے گا۔
محسن نقوی نے حالیہ دہشتگردی کے واقعات کو افغان شہریوں سے جوڑتے ہوئے کہا کہ “ملک میں ہونے والے تمام حملوں میں افغان ملوث ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ چند دن پہلے ایف سی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے والے تین افراد افغان تھے، جبکہ اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ حملے میں ملوث شخص بھی افغان شہری تھا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک بھر میں غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل کامیابی سے جاری ہے۔
انہوں نے کہا، “تمام غیر قانونی افغانوں کی وطن واپسی کو یقینی بنانا ہوگا۔ وفاقی حکومت کے فیصلے پر ہر حال میں عمل ہوگا۔ پاکستان مزید دھماکوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔”
انہوں نے غیر قانونی افغان شہریوں سے کہا کہ وہ باعزت طریقے سے وطن واپس جائیں۔
“اگر کوئی واپس بھیجا گیا اور پھر غیر قانونی طور پر پاکستان آیا تو اسے پکڑا جائے گا اور سزا دی جائے گی۔ خیبر پختونخوا میں افغان کیمپ بھی ختم کیے جارہے ہیں۔”
محسن نقوی نے مزید کہا کہ پاکستان کو پوری طرح معلوم ہے کہ دہشتگردی کے پیچھے کون ہے اور کون ان کی سرپرستی کر رہا ہے، اور افغانستان کی عبوری حکومت سے کہا کہ وہ دہشتگردوں کو کنٹرول کرے۔
جعلی خبروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان
وزیر داخلہ نے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی غلط معلومات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “سوشل میڈیا پر 90 فیصد خبریں جھوٹی ہیں۔” انہوں نے جعلی خبروں اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا، “یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی شخص سوشل میڈیا پر کچھ بھی پوسٹ کر دے۔ غلط خبر پھیلانے والے صحافی نہیں ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ قومی میڈیا پر غلط خبر نشر کرنے پر پیمرا نوٹس جاری کرتا ہے، اسی طرح سوشل میڈیا کے لیے بھی سخت قوانین لاگو کیے جائیں گے۔
محسن نقوی نے بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا،
“لندن میں بیٹھے لوگ سن لیں— آپ کو بہت جلد واپس لایا جائے گا، اور آپ کو جواب دینا ہوگا۔”
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، اور جعلی خبروں کے خلاف کارروائیاں سختی سے جاری رہیں گی۔
