سیاست
مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا
علی آفریدی
کئی سال پہلے ایک انسان کی انتھک محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں
اُٹھنے والی قوم، جو باضابطہ طور پر اپنی شناخت منوانے میں بلآخر کامیاب ہو گئی تھی، ایک کشمکش اور تھکن کا شکار تھی۔ جو اپنوں کی جانیں قربان کر کےخالی ہاتھ صرف اُس ذات کی جانب نگاہیں کئے ہوئے تھی جس کی ایک آواز پہ لبیک کہ کر وہ سب اپنا گھر، کاروبار، آسائشیں، سہولتیں، اپنی زندگی چھوڑ کر آزاد وطن کے ہمسفر بننے چلے آئے تھے۔ وہ نگاہیں منتظر تھیں اُسی حوصلے کی، اُسی ہمت کی جو ڈگمگا رہی تھی آنے والے خدشات و خطرات کو دیکھ کر۔
تاریخ گواہ ہے مسلمانوں پہ جتنا بھی مشکل دور آیا ہے، چاہے کتنے ہی دُشوار راستوں اور اذیتوں کا سامنا درکار ہو، رضائے الٰہی سے مسلمانوں میں قدرتی طور پر ایک طاقت دیکھنے میں آئی، ایمان کی طاقت۔ اُسی طاقت کو ایک بار پھر سے بابائے قوم نے اپنے پہلے جلسہءِ عام میں اُن مسلمانوں میں دوبارہ سے زندہ کیا۔ اُن کو وہ ہمت دلائی جس کی مدد سے وہ آنے والے وقتوں کے مشکل حالات کا جراتمندی سے مقانلہ کر سکیں۔ یہ وہی ایمان ہے جس کی بدولت مسلمان فرعون تک سے لڑ گئے، یہ وہی ایمان تھا جس نے یزیدیت کا ڈٹ کے سامنا کیا اور اسلام کو زندہ کیا، یہ وہی ایمان تھا کہ سو سالہ غلامی کی بیڑیوں کو اُسی ایمان کی تلواروں سے توڑ کر آج ہم چین کی سانس لینے کے قابل بنے۔ کیونکہ مسلمان کے ایمان کی یہ بنیادی شرط ہے کہ وہ مصیبت میں گھبراتا نہیں ہے۔ ایک مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ اُس کے لیے ہر مصیبت اور تکلیف اللہ کی طرف سے اُس کے ایمان کی آزمائش کا ذریعہ ہے، جس پہ اُس کو اپنی ہمت و حوصلہ سے پورا اُترنا ہے۔
دشمنانِ ملک و مذہب ہمہ وقت ایسی کمزوری کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے وہ مسلمانوں کو زیر کر سکیں، اور کسی بھی قوم کو زیر کرنے کا آسان تر طریقہ، بتدریج انتشار اور تغایُر کی بنیاد رکھنا۔ یہ ملک خدا تعالیٰ کی جانب سے اِس قوم کو ایک تحفہ ہے، اُس ایمان کی آزمائش کے بدلے جس پہ وہ پچاس ہزار مسلمان پورے اُترے تھے۔ آج، یہ ملک جن ملک دشمن عناصروں میں گھرا ہوا ہے، جن اندرونی و بیرونی خطرات سے لڑ رہا ہے، وہ ایک جنگ سے کم نہیں۔ دشمنوں نے ہمارے بیچ جو تفرقے اور بغاوت کےبیج بو دیے ہیں، اُن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں درکار ہے وہی حوصلہ جو اِن مصائب سے لڑنے کا جذبہ دے سکے۔ جو ہمیں وہی درس یاد دلائے جو جھٹلاتی تھی ہر خوف و خطر کو، جو جگاتی تھی اُس جذبے کی لہر جس سے بنتا تھا وہ مسلمان جو مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا ہے۔
پاکستان روزِ اوّل سے ایسے دشمنوں کا شکار رہا ہے جس نے ہمیشہ سے مسلمانوں کے اتحاد اور ایمان کو ہر ممکن ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی ہے اور اپنے اِن گندے عزائم کو پورا کرنے کے لیئے اُس نے مسلمانوں میں ایسے عناصر کو اُجاگر کر کے فروغ دیا ہے جس سے ایمان کی کمزوری کو ممکن بنایا جا سکے۔ یہ ایک سبب ہے آج بٹے ہوئے مسلمانوں کا۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس سے آج ہم زخم کھا کر بھی خاموش ہیں۔یہ وجہ ہے کہ یہ ملک ہر بار ایک انتشار کا شکار رہا ہے، ہمارے اتحاد کو توڑا جاتا رہا ہے، کیونکہ ہم نے اپنے ایمان کی زنجیریں خود اپنے ہاتھوں سے دشمنوں کو تھمائی ہیں۔ ہم خود اُس اتحاد سے الگ ہوئے جس کی پارس ڈوری میں قائدِاعظم نے جوڑا تھا۔ یہ وجہ ہےکہ دشمن اتنے قریب سے وار کرنے میں کامیاب ہوا، جب ایک قوم اپنے قومی نظریاتی عقیدے سے ہٹ کر، جدید دور کے طرز میں اپنی بنیادی شناختوں کو ناپید بنا دیتی ہے۔ تو وہ ایک بار پھر سے اُس جنگ کا حصہ بننے چلتے ہیں جو قوم کو قومیت کے دائرے سے نکال کر انفرادیت کے سمندر میں ڈبو کر اُن سے وطنیت اور قومی اتحاد چھین لے، اور ایسے میں اُن کے حوصلوں کو مزید پست کرنے کے لئے اِن کے سامنے کٹھن آزمائشوں کا پہاڑ، سماجی، ثقافتی،اور قومی اختلافات کی صورت میں کھڑا کار دیتے ہیں۔ یہ سب عناصر دشمن کو موقع دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں میں ہڑبڑاہٹ اور افراتری کا عالم پیدا کر سکیں، جن سے ان کی حوصلہ شکنی ہو۔
آج ہم، یہ ملک، یہ وطنیت، یہ قوم جن خطرات میں ڈھل چکی ہے، اُس سے بچانے کے لیے ہمیں پھر سے وہی مسیحا درکار ہے۔ جو ہمیں جتا سکے کہ ہم ہیں وہ مسلمان جو کٹھن وقت میں مصیبتوں کی پہاڑ سہہ کر اپنے ضرف کے امتحانات سے گزر کراپنی صلاحیتوں کومنواتے ہیں۔ ایسا راہنما، جو ہمارے حوصلوں کو بلند اورقومی جذبے کو زندہ رکھنے میں مددگار ثابت ہو۔ آج اِس قوم کو ضرورت ہے، اُسی قائد کی جس کی پیروی اور سربراہی میں مسلمان اپنے عَلم کو بلند رکھ سکیں۔ ایک ایسے سپہ سالار کی جس کی قیادت میں مسلمانوں کے ایمان کی گونج دشمنوں کے ارادوں کو ملیامیٹ کر دے، اُن کے غلیظ عزائم کو راکھ کر دے۔ اور ثابت کر دے دنیا کو کہ یہ ہے وہ مسلمان جو اپنے اُپر آنے والی مشکلات اور مصیبتوں کو ایمان کی آزمائش کے سوا کچھ نہیں مانتا، اور اُس میں سُرخُرو ہونا اپنا اولیں فریضہ سمجھتا ہے۔ جیسے حضرت علی نے فرمایا تھا، کہ مومن کے ایمان کی نشانیوں میں سے ہے ؛ عدل، صبر، یقین، جہاد۔ یہ دنیا جلد ہی دیکھے گی اسی مسلمان کو اُسی فاروقی قیادت کی رہنمائی میں عدل کرتا ہوا، صدیقِ اکبر جیسا یقینِ کامل کی بنیاد رکھتے ہوئے، حیدری جذبہ سے جہاد لڑتا ہوا، اور اپنی مشکلات و مصیبتوں پہ صبر کا دامن تھامتے ہوئے کامیابی سے دشمنوں کو یہ للکارتا ہوا کہ ہاں میں ہوں وہ مسلمان جو مصیبتوں سے گھبراتا نہیں۔